زمین پر رہنے والے پُرسکون ہو جائیں کیونکہ امریکہ نے آخرکار اپنے ایٹمی اسلحے کا نظام چلانے کے لیے پرانے زمانے کی فلاپی ڈیسکس پر انحصار ختم کر دیا۔
امریکی محکمہ دفاع نے بوسیدہ نظام میں بہتری کے بعد اپنا قدم مستقبل میں رکھ ہی دیا لیکن بعض مبصرین کو یہ جان کر حیرت ہو سکتی ہے کہ اس اقدام کی کتنی ضرورت تھی۔
امریکی فضائیہ کے گلوبل سٹرائیک کمانڈ کے ترجمان ڈیوڈ فیگارڈ نے ایک ای میل میں کہا کہ خود کار سٹرٹیجک کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم(ایس اے سی سی ایس) ’آج بھی استعمال میں ہے لیکن اس میں فلاپی استعمال نہیں کی جاتی۔‘ ایئرفورس گلوبل سٹرائیک کمانڈ فضائیہ کی حد تک ایٹمی ہتھیاروں کے انتظام سے متعلق نظام ہے۔’فضائیہ کے گلوبل سٹرائیک کمانڈ نے مستقبل کے لیے اپنے نظام کو جدید بنانے کا عزم کر رکھا ہے۔‘
ایٹمی ہتھیاروں میں وسیع تر بہتری اس عمل کا حصہ ہے، جو سابق امریکی صدر باراک حسین اوبامہ کے دور میں شروع ہوا اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں جاری ہے۔
فلاپی ڈسک کا استعمال ترک کرنے کا کام جون میں مکمل کر لیا گیا تھا لیکن اس وقت اس حوالے سے اطلاعات سامنے نہیں آئی تھیں۔ سی 41 ایس آر نیٹ نامی ویب سائٹ نے، جو فوجی ٹیکنالوجی کے بارے میں خبریں دیتی ہیں ، گذشتہ ہفتے اس بارے میں بتایا تھا۔
آٹھویں ایئرفورس کے ترجمان جسٹن اوکس نے ای میل میں بتایا ’امریکی فضائیہ نے ایس اے سی سی فلاپی ڈرائیوز کے پرانے نظام کو تبدیل کرنے کا کام مکمل کر لیا ہے۔ نظام میں تبدیلی کی بدولت پیغامات محفوظ کرنے کی گنجائش اور ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے حوالے سے نازک پیغام ملنے اور اس پر عمل درآمد کے سلسلے میں آپریٹر کے جواب کے وقت میں اضافہ ہو گیا ہے۔‘
امریکہ کے ایٹمی ہتھیاروں کے نظام میں فلاپی ڈسک کے استعمال کا معاملہ 2016 میں امریکی حکومت کے احتساب دفتر کی رپورٹ میں نمایاں کیا گیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق فلاپی ڈسکس ایک ایسے نظام میں استعمال کی جا رہی ہیں جو’ملک کی ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے حوالے سے معاملات کو مربوط بناتا ہے۔‘
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ایٹمی ہتھیاروں کا خود کار نظام آئی بی ایم سیریز ون کمپیوٹرز پر چلایا جا رہا تھا، جو 1970 کی دہائی کا ہارڈ ویئر ہے اوربین البراعظمی بلسٹک میزائلوں،ایٹم بم بردار طیاروں اور دورانِ پرواز طیاروں میں تیل بھرنے والے طیاروں کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔
رپورٹ میں خبردار کیا گیا تھا کہ وزارتِ دفاع ان سرکاری اداروں میں سے ایک ادارہ ہے جس کے کمپیوٹر نظام کا انحصار’سافٹ ویئر کی پرانی زبانوں اور ہارڈویئرکے ایسے حصوں پر ہے جنہیں جدید نظام کی سپورٹ حاصل نہیں ۔ ان میں بعض چیزیں تو’کم ازکم 50 برس پرانی ہیں۔‘
رپورٹ میں وزارت خزانہ،انصاف،سوشل سکیورٹی اور سابق فوجیوں کے بنائے گئے ادارے کے پرانے اور متروک نظام کا بھی ذکر کیا گیا ۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن 2014 کی ایک’60 منٹ‘کی رپورٹ میں پرانی ٹیکنالوجی پر انحصار کی غیرمتوقع خوبی کی نشاندہی بھی کی گئی تھی۔ چونکہ یہ نظام انٹرنیٹ سے منسلک نہیں لہذا بے حد محفوظ ہے: ہیکر فلاپی ڈسک تک نہیں پہنچ سکتے۔
جدید دور کا کوئی قاری یہ سب پڑھ کر حیران ہو سکتا ہے۔ یہ فلاپی ڈسک کیا ہے؟
ہو سکتا ہے کہ فلاپی ڈسکس کی باقی رہ جانے والی FloppyDisk.com سب سے بڑی کمپنی ہو۔ اس کمپنی میں فلاپی ڈسکس فروخت کرنے اور ذخیرہ کرنے والے ٹام پرسکی نے کہا ہے کہ فلاپی ڈسک اُس وقت کی آرٹ کا ایک نمونہ ہے جب’دنیا میں انٹرنیٹ نہیں تھا۔‘
ماضی میں اگر آپ کسی کمپیوٹر یا اس سے بڑے آلے کے بارے میں سافٹ ویئر کی شکل میں معلومات حاصل کرنا چاہتے تو آپ یہ معلومات ایک فلاپی ڈسک پر محفوظ کرتے تھے اور اس ڈسک کو دوسری مشین میں ڈال کر ان معلومات تک رسائی حاصل کرتے تھے۔
ٹام پرسکی نے ایک انٹرویو میں کہا ’کہیں بھی لاگ ان نہیں کرنا پڑتا تھا۔ لاگ ان اور ڈاؤن لوڈ کرنے کا کوئی سافٹ ویئر یا ڈیٹا کو اپ ڈیٹ کرنے کا کوئی طریقہ یا کچھ بھی ایسا نہیں تھا۔‘
ہو سکتا ہے کہ بعض قارئین حتیٰ کہ خشک سرکاری رپورٹیں پڑھنے والوں کو بھی معلوم نہ ہو کہ فلاپی ڈسک کیا ہے۔ حکومت کے احتساب آفس نے دو فلاپی ڈسکس کی ایک تصویر فراہم کی ہے۔ ایک خلاصے میں انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ان کے مقام کے بارے میں بھی بتایا گیا ہے۔
احتساب آفس نے اپنی رپورٹ میں بتایا ’1970 کی دہائی میں متعارف کروائی گئی آٹھ انچ کی فلاپی ڈسک معلومات کومحفوظ بنانے کا ایک ذریعہ ہے جس میں 80 کلوبائٹس تک ڈیٹا کو محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے مقابلے میں جدید دور کی صرف ایک فلیش ڈرائیو پر32 لاکھ سے زیادہ فلاپی ڈسکس کا ڈیٹا محفوظ کیا جا سکتا ہے۔‘
ٹام پرسکی کے مطابق، جن کے ذخیرے میں پانچ لاکھ سے زیادہ فلاپی ڈسکس ہیں،فلاپی ڈسکس توقع سے زیادہ بڑے پیمانے پراستعمال کی جا رہی ہیں۔ خاص طور پر صنعتی مشینوں،طیاروں،طبی آلات اور ہارڈ ویئر کے ایسے پیچیدہ نظام میں ،جو دنیا کی فوجیں استعمال کرتی ہیں۔
ٹام کے خیال میں ایک اندازے کے مطابق تقریباً پانچ برس سے کسی نے نئی فلاپی ڈسک نہیں بنائی۔
انہوں نے کہا ’ایک بڑی صنعتی مشین جو 40،30 یا 50 سال کے لیے بنائی جاتی ہے اور حقیقت میں 30،40 یا 50 برس چلتی بھی ہے تو کیا آپ اس کو اس لیے اٹھا کر پھینک دیتے ہیں کہ مشین میں معلومات محفوظ کرنے کا نیا طریقہ سامنے آ گیا ہے؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فلاپی ڈسک کے مقابلے میں یو ایس بی ڈرائیو یا انٹرنیٹ کے استعمال پر آنے والا خرچہ کتنا ہے؟‘
انہوں نے کہا کہ وائی فائی لنک یا فلیش ڈرائیوز کے مقابلے میں معلومات کی منتقلی کے عمل میں فلاپی ڈسک کو کچھ اعتبار سے برتری حاصل ہے۔
’ہمارے پاس ایک ایسی پرانی ٹیکنالوجی ہے جسے ہیک نہیں کیا جا سکتا، جو مہنگی نہیں ، جسے سمجھنا انتہائی آسان ہے۔ یہ بہت پائیدار ہے اور جب وہ معلومات جنہیں آپ کمپیوٹر میں منتقل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ کم ہوں تو ایسی صورت میں فلاپی ڈسک استعمال کرنا مکمل طور پر اچھا اور درست عمل ہے۔ فلاپی ڈسک کو آئندہ پانچ،10 یا 15 برس تک استعمال کرنا درست ہوگا؟ میں یہ نہیں جانتا۔‘
ٹام نے فلاپی ڈسک جیسے ہارڈ ویئر کی کئی خامیوں کی بھی نشاندہی کی: ان میں انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کیے جانے والے ڈیٹا کے مقابلے میں بہت کم ڈیٹا محفوظ کیا جا سکتا ہے، ان کی رفتار کم ہوتی ہے اور انہیں دوسروں تک منتقل کرنا مہنگا پڑتا ہے، انہیں پڑھنے کے لیے استعمال ہونے والی مشینیں خراب ہونے کی صورت میں مرمت کے لیے آپ کو کسی سپیشلسٹ کو تلاش کرنا پڑتا ہے اور بلاشبہ گذشتہ پانچ برس میں کسی نے نئی فلاپی ڈسک نہیں بنائی۔‘
انہوں نے کہا ’یقیناً ڈیٹا منتقلی کے جدید آلات کے مقابلے میں فلاپی ڈسک کی کچھ خوبیاں ہیں اور بہت ساری خامیاں بھی۔ڈیٹا منتقلی کے آلات متروک ہو جائیں گے لیکن فی الحال ایسا نہیں ۔ یہ ایک طویل،پیچیدہ اوربے ترتیب معاملہ ہے۔ یا کم ازکم مجھے امید ہے کہ ایسا ہے۔‘
© The Independent