جے یو آئی۔ ف کے آزادی مارچ میں سیاسی قوت کے مظاہرے کے ساتھ مردانہ طاقت کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔
خواتین کی حیثیت پر متنازع بیانات دینے والے مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی امامت میں حلیف سیاسی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن بھی بھول گئیں کہ انہوں نے خواتین سے ووٹ لے کر ہی اقتدار کے ایوانوں تک جانا ہے۔
بظاہر یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ بھی فراموش کر بیٹھے کہ اپنے ایجنڈوں میں یہ جماعتیں سیاسی عمل میں خواتین کی شمولیت پر یقین کا عزم رکھتی ہیں۔ مارچ کے انعقاد پر گفت و شنید شروع ہوئی، آل پارٹیز کانفرنسوں کے بعد وفود کی سطح پر ملاقاتیں ہوئیں اور اس سارے عمل میں خواتین ایسے ہی غیر حاضر تھیں جیسے وہ مذہبی جماعتوں کے سیاسی بیانیے سے غائب ہوتی ہیں۔
خواتین کا ووٹ حلال اور خواتین کی عملی سیاست میں موجودگی حرام۔ مذہبی اور دائیں بازو کی جماعتوں کی سیاست ہمیشہ اس تضاد کا شکار رہی۔ مولانا ملین مارچ کو دیکھتی دنیا کی آنکھیں ڈھونڈ رہی ہیں کہ ان کی خواتین ووٹر کہاں ہیں؟ خواتین کارکن کہاں ہیں؟ اور خواتین رہنما کہاں ہیں؟
مارچ سے خواتین مخالف انتہا پسند ملائیت کی بو اس مارچ کی حمایت کرنے والے بلاول اور مریم نواز کے ترقی پسندوں کو آ رہی ہے کہ نہیں؟
جب اس مارچ کے خدوخال سیاسی حلیفوں کے مابین طے پا رہے تھے تو اس سارے عمل میں خواتین کو کون سا منتر جنتر پڑھ کر غائب کر دیا گیا؟ زیادہ حیران کن بات یہ کہ سیاسی ایوانوں اور پارٹی عہدوں پر بیٹھی خواتین نے آزادی مارچ میں اپنی موجودگی کو غیر ضروری کیوں سمجھا؟
مولانا فضل الرحمٰن سمیت جے یو آئی ۔ ف اور ن لیگ کے کئی رہنماؤں نے پاکستان تحریک انصاف کے دھرنے میں خواتین کی موجودگی پر شدید مایوس کن اور غلیظ جملے کسے تھے۔ انہی بیانات میں پی ٹی آئی کی لیڈر شپ پر ایسے الزامات بھی لگے کہ ماؤں بیٹیوں کو ناچ گانے میں لگا رکھا ہے۔ یہ بیانات پارلیمنٹ کے ایوانوں میں بھی گونجے، بحث و تکرار اور گرما گرمی ہوئی۔
خواتین مخالف ان بیانات پر ماہرین کا خیال تھا کہ ایسے بیانات سے نہ صرف سیاسی عمل میں خواتین کی شرکت پر منفی اثر پڑے گا بلکہ آزادیِ نسواں کی جدوجہد بھی متاثر ہو گی۔
سوشل میڈیا پر بھی مولانا فضل الرحمٰن اور دیگر کے بیانات پر شدید ردعمل سامنے آیا۔ خواتین کی سماجی حیثیت کے ساتھ جڑے چیلنجوں میں سیاسی میدان میں اپنی جگہ بنانے کی جدو جہد کرنے والی خواتین سیاسی کارکنوں پر ایسے حملے اور جملے دونوں سخت ناگوار تھے۔
مجموعی طور پر بنیادی انسانی آزادیوں کے حوالے سے پاکستان میں صورت حال مخدوش ہے۔ ایک طرف آزادیِ اظہار پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور میڈیا کی آزادی پر قدغن لگانے کے خواہش مند ادارے اپنے پنجے تیز کر رہے ہیں تو دوسری طرف آزادی مارچ کے بعد سماج کے کونوں کھدروں میں پوشیدہ نظریاتی کشمش اور عورت مخالف گھٹن ابھر کر سامنے آچکی ہے۔ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ پر بھی وطن عزیز کو کوئی خاطر خواہ کامیابیاں نہیں ملیں۔
ایسی صورت حال میں ایک بڑی سیاسی تحریک کے دعوے دار خواتین کی شمولیت کے انکاری ہو جائیں تو اس سے ملک کی نصف آبادی کے سیاسی مستقبل پر سنجیدہ سوالات اٹھیں گے۔ آزادی مارچ میں جے یو آئی۔ ف اور حلیف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی طرف سے خواتین کی عدم شمولیت پر عجیب و غریب بیانات صنفی برابری کی جدوجہد پر کالے بادلوں کی طرح منڈلا رہے ہیں۔
کوئی بھی سیاسی، مذہبی اور سماجی تحریک اس وقت تک نامکمل رہتی ہے جب تک وہ نظام کے تمام شراکت داروں کی نمائندگی نہ کرے۔ مولانا کے مارچ میں خواتین کی عدم شرکت مستقبل کے اس خاکے پر سوالات اٹھا رہی ہے جس کا نقشہ مولانا اپنے نستعلیق انداز میں کھینچ رہے ہیں۔
مارچ کے آغاز میں ہی انڈپینڈنٹ اردو کی خاتون رپورٹر کو مارچ کے شرکا کی جانب سے جس رویے کا سامنا کرنا پڑا وہ پریشان کن ہے۔ ایک خاتون رپورٹر کی موجودگی سے مولانا کا انقلاب پہلے قدم پر جس طرح لڑکھڑایا وہ گھروں سے نکل کر مردوں کی شانہ بشانہ کام کرنے والی خواتین کے لیے تحفظات کا باعث ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن خواتین اینکرز کو جب انٹرویو دیتے ہیں تو ان سے دوپٹہ سر پر رکھنے کی فرمائش کرتے ہیں۔ وہی مولانا اسمبلی میں انٹرنیشنل کانفرنسوں میں دوپٹّے کے بغیر بھی خواتین سے بات کر لیتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جے یو آئی ۔ ف کے کئی رہنما بھی خواتین اینکروں کے پروگرامز میں شریک ہوتے ہیں، لہٰذا یہ خیال کرنا کہ اس جماعت کو خواتین صحافیوں کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کا علم نہیں غلط ہو گا۔
لیکن مسئلہ خواتین کی صحافت نہیں بلکہ وہ بے بنیاد بیانیہ ہے جس کے تحت مذہبی سیاسی جماعتیں ہمیشہ خواتین کے حقوق پر دوغلی پالیسی اپناتی ہیں۔
اس مارچ کے روحِ رواں مولانا فضل الرحمٰن جمہوری عمل کا حصہ رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مولانا لبرل، ترقی پسند، رجعت پسند اور آمرانہ ادوار سبھی کی ساتھ اقتدار میں شریک رہے۔
انہیں اس ہنر کی وجہ سے زیرک سیاست دان سمجھا جاتا ہے کہ نظریاتی اختلافات کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں اور قربت بھی رکھتے ہیں، لیکن ان کی جماعت مجموعی طور پر مختلف اوقات میں جمہوری نظام کے ان بنیادی اصولوں اور اقدار کو رد کرتی رہی ہے جو خواتین کو برابر حقوق دیتے ہیں۔
اس مارچ کے فیصلہ سازوں نے خواتین کو اس اہم سیاسی موڑ پر الگ رکھنے کی جو ساز باز کی ہے، اس سے مذہبی جنونیت اور انتہا پسندی کا ڈراؤنا خواب پھر سر اٹھا رہا ہے۔ مولانا تحریک انصاف کے دھرنے میں خواتین کی موجودگی اور شمولیت پر تنقیدی اور قابل مذمت بیان داغتے رہے ہیں۔
ابھی بھی جے یو آئی۔ ف کے بعض رہنماؤں نے اپنے اس فیصلے کی وجہ پی ٹی آئی کی کفر زدہ دھرنے کا ماحول قرار دی ہے۔ کفر زدہ کے لفظ سے بہتر کوئی لفظ تحریک انصاف کے دھرنے پر بات کرتے جے یو آئی ۔ ف رہنماؤں کے تاثرات کی ترجمانی نہیں کر سکتا۔
ماضی میں پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتیں طالبان کی شکل میں جمہوری اور سماجی حقوق کی پامالی کی حمایت کر چکی ہیں، بدقسمتی سے اس طالبان زدہ ملائیت کے سارے عمل کا نشانہ سب سے زیادہ خواتین بنیں۔
اس داغ دار ڈراؤنے دور کو یاد کر کے یہ خدشہ پیدا ہو رہا ہے کہ کہیں یہ مارچ ملائیت کا جن پھر آزاد نہ کر دے جس کو قید کرنے کی جدوجہد جمہوری نظام میں یقین کرنے والی قوتیں کرتی رہی ہیں۔
بظاہر مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ کے مطالبات میں جمہوری نظام کی تبدیلی کا واضح پیغام نہیں مگر بہرحال مولانا اس مارچ کی کامیابی سے وہ طاقت حاصل کرنے کے عزائم رکھتے ہیں جس کی بنیاد پر وہ نظام بدلنے پر قادر ہو سکیں۔
ہم جیسے آئیڈلسٹ جس جمہوری نظام کی اصلاح چاہتے ہیں اس میں بنیادی شہری حقوق اور آزادیوں کا تحفظ سر فہرست ہے۔ جے یو آئی ۔ ف اور ملتے جلتے نظریات کی حامل جماعتیں اس نظام سے فائدہ تو اٹھاتی رہی ہیں لیکن انسانی حقوق کی جدوجہد میں کبھی شریک نہیں ہوئیں۔
مولانا صاحب آپ اپنے سیاسی قد کو منوانے کے لیے ہزار بار مارچ کریں، حکومت کی نالائقی اور نااہلی پر احتجاج کرنا آپ کا بنیادی جمہوری حق ہے، مگر آپ سے مودبانہ گزارش ہے کہ آپ جو تبدیلی اس نظام میں لانا چاہتے ہیں اس میں خواتین اور اقلیتوں کے حقوق و حیثیت پر بھی روشنی ڈال دیں۔
خواتین کے سیاسی اور سماجی حقوق کی جدوجہد کو کسی قلیل مدت سیاسی مفاد کے نظر کرنا دہائیوں سے جاری حقوق کی تحریک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچائے گا۔
پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کو بھی یہ وضاحت کرنے کی ضرورت ہے کہ ان کے ایجنڈے پر صنفی برابری کا منجن محض خواتین ووٹروں کو بہلانے کے لیے ہیں یا وہ حقیقی معنوں میں اہم سیاسی فیصلوں میں اس عنصر کو ملحوظ رکھتے ہیں۔