خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے مختلف تنطیموں کے رفاہی کاموں کے لیے چندہ اور خیرات اکھٹا کرانے کے طریقہ کار کو باضابطہ بنانے کے لیے ایک قانونی مسودہ تیار کیا ہے لیکن اس مجوزہ مسودے پر مدراس کی جانب سے تحفظات آنا شروع ہوگئےہیں ۔
‘خیبر پختونخوا چیریٹیز ایکٹ 2019’ کی کابینہ سے منظوری کے بعد خیبر پختوا اسمبلی میں منطوری کی لیے پیش کیا جائے گا۔
اس قانونی مسودے میں ‘چیریٹی’ کی تعریف میں لکھا گیا ہے کہ وہ تنظیمیں یا ادارے جو رفاہی کاموں کے لیے چندہ اور خیرات اکھٹا کرتےہیں اور سوشل ویلفیر ارڈینیس1860، سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ، اور کمپنیز ایکٹ 2017 کے تحت رجسٹرڈ ہوں۔
اس نئے قانونی مسودے کے شق نمبر 3 کے تحت ایک رفاہی کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے گا جو تین سے پانچ ممبران پر مشتمل ہوگا ۔
یہ کمیشن ان فلاحی اداروں پر عوام کی اعتماد کی بحالی یقینی بنائے گا اور رجسٹریشن اتھاریٹیز کی رہنمائی بھی کرے گا۔
کمیشن اس بات کا بھی پابند ہوگا کہ وہ فلاحی اداروں کی جانب سے جمع کردہ رقم درست مقصد کے استعمال کو یقنی بنائے جبکہ کمیشن کو یہ اختیار بھی دیا گیا ہے کہ وہ ان رقوم کی جانچ پڑتال، آڈٹ، اور پابندی لگانے کی بھی سفارش کرسکتا ہے۔
مسودے کے مطابق کمیشن تمام فلاحی اداروں کی رقوم پر نظر رکھنے کے لیے نگرانی اور احتساب کا ایک طریقہ کار وضع کریں گے تاکہ یہ بات یقینی بنائی جائے کہ یہ رقوم درست جگہ پر خرچ ہو رہی ہیں۔
وفاق المدراس کے ترجمان مفتی سراج الحسن نے دی انڈ پینڈنٹ کو بتایا کہ اس مسودے کا نام بظاہر تو ‘چیریٹی ایکٹ ’ رکھا گیا ہے لیکن اصل میں یہ قانون حکومت نے مدارس پر قدغن لگانے کے لیے بنایا ہے۔
ان سے جب پوچھا گیا کہ مسودے کی کون سی شقوں پر ان کے تحفظات ہیں، تو انہوں نے جواب دیتے ہوئے بتایا کہ اس بل میں حکومت مدارس کی آمدنی کے ذرائع جاننے کے بارے میں دلچسپی رکھتی ہے لیکن مسئلہ یہ کہ ہمیں بعض ایسے افراد اور ادارے بھی چندہ دیتے ہیں جو نہیں چاہتے ان کا نام ظاہر ہو۔
اس مسودے کے شق نمبر 15میں لکھا گیا ہے کہ تمام فلاحی ادارے مقاصد،آمدنی کے ذرائع، اور ان رقوم کی خرچ کی تفصیلات کمیشن کو دینے کے پابند ہوں گے۔
اس نئے قانونی مسودے میں تمام فلاحی اداروں کو اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ وہ اپنے ادارے میں ایک ‘چیریٹی’ ٹرسٹ بنائیں گے جو ادارے کے سارے معاملات کو دیکھ سکیں گے۔
مسودے کے شق نمبر 9 میں ان فلاحی ادروں کے فنڈز کی تحقیقات کے بارے میں بھی لکھا گیا ہے کہ ’حکومت کی شکایت یا کسی بھی شخص کی جانب سے رقوم کے ٖغلط استعمال کی شکایت پر حکومت کی جانب سے انکوائری طلب کی جا سکتی ہے ۔تحقیقات میں کسی بھی جرم کے ثابت ہونے کی صورت میں حکومت ادارے کے خلاف کارروائی کی مجاز ہوگی۔’
فلاحی اداروں کی رجسٹریشن کا طریقہ کار
اس مجوزہ قانونی مسودے میں تمام فلاحی ادروں کی رجسٹریشن کا طریقہ کار بھی وضع کیا گیا ہے۔کمیشن کے مطابق صوبائی سطح پر اداروں کی رجسٹریشن کمیشن کے ساتھ کی جائے گی جبکہ ضلعی اور تحصیل سطح پر ادارے ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کے ساتھ رجسٹرڈ ہوں گے۔
مسودہ مزید کہتا ہے کہ تمام فلاحی ادارے ایک رجسٹر میں اپنے ادارے کی جانب سے ساری تفصیلات لکھیں گے جس میں ڈونر کسی بھی وقت اپنے رقم کی تفصیلات چیک کر سکے گا ۔ ادارہ بھی تمام معاملات متعلق فرد کو دینے کی پابند ہو گی۔
اس مسودے کے کسی بھی شق کی خلاف ورزی کی صورت میں چھ ماہ قید اور ایک لاکھ روپے تک جرمانہ ادا کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔
مدارس کے نئے قانونی مسودے پر تحفظات کیوں؟
اتحاد تنظیمات المدراس جو پاکستان کے پانچ مدارس بورڈز کی ایک متحدہ تنظیم ہے نے خیبر پختونخوا چیریٹی ایکٹ کی مجوزہ مسودے کو مسترد کیا ہے۔
اس اتحاد میں وفاق المدراس پاکستان بھی شامل ہے جو ملک بھر میں 20 ہزار مدارس کا نیٹ ورک چلا رہا ہے جس میں 27 لاکھ سے زائد طلبا دینی و عصری تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ مدراس بورڈ کے اس اتحاد نے گزشتہ روز پشاور میں مشاورتی اجلاس بھی منعقد کیا تھا جس میں جماعت اسلامی کے تحت چلنے والے مدارس کے بورڈ کی نمائندہ سمیت دیگر پانچ بورڈز کے نمائندگان بھی موجود تھے۔
اس اتحاد نے خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے فلاحی اداروں کو باضابطہ بنانے کے لیے بنائے گئے قانونی مسودہ کومتفقہ طور پر مسترد کیا ہے۔
وفاق المدراس کے ترجمان مفتی سراج الحسن کا مزید کہنا ہے کہ ‘ حکومت اگر ہمارے ساتھ کچھ مدد نہیں کر سکتی تو ان کو ہمارے چندے اور خیرات سے کیا لینا دینا ہے۔ بہت سے مخیر حضرات نہیں چاہتے کہ ان کے دیئے گئے چندے کا کسی کو بھی پتہ چلے۔’
آڈٹ کے بارے میں سراج الحسن کا کہنا تھا کہ ہمارے مدارس کا سالانہ آڈٹ ہوتا ہے لیکن چیرٹی ایکٹ کے تحت حکومت کو چندے کی تفیصلات کی فراہمی سے مخیر حضرات کی ذہنوں میں ابہام پیدا ہو جائیں گے۔
‘وہ لوگ جو ہمیں چندہ دیتے ہیں اگر ہم ان کی تفصیلات حکومت کو فراہم کریں گے تو اس بارے میں وہ مخیرحضرات ڈریں گے کہ ایسا نہ ہوں یہ چندہ دینا ان کے لیے کوئی مسئلہ پیدا نہ کر دے۔’
انہوں نے مزید بتایا کہ دوسرا بڑا مسئلہ مدارس کی رجسٹریشن کا ہے او رہم چاہتے ہیں کہ مدارس کی رجسٹریشن وزارت تعلیم کے ساتھ ہو لیکن حکومت ہمارے مطالبے کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔
جماعت اسلامی کی فلاحی تنظیم الخدمت فاوٗ نڈیشن بھی ملک میں مخلتف ادارے چلا رہی ہے۔ ان اداروں میں یتیم بچوں کے لیے سکولز سمیت ہسپتالوں اور ایمبولنیس کی ایک نیٹ ورک بھی موجود ہے۔
تاہم جماعت اسلامی کا اس مجوزہ قانون پر موقف مثبت ہے۔ الخدمت فاونڈیشن خیبر پختونخوا کے سربراہ خالد وقاص چمکنی نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ الخدمت فاونڈیشن سمیت جماعت اسلامی کے جتنے بھی ادارے ہیں ان کی رجسٹریشن پہلے سے موجود ہے اور پاکستانی قوانین کے دائرے میں رہ کر اپنے معاملات چلا رہے ہیں۔
ان سے جب پوچھا گیا کہ اس مجوزہ قانون میں یہ لکھا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے فلاحی اداروں کی آمدنی کا آڈٹ کرا سکے گی، اس بارے میں انہوں نے بتایا کہ ہماری جانب سےحکومتی آڈٹ پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا ۔
’ہم شروع دن سے فلاحی اداروں کی اندرونی اور بیرونی ماہرین سے بھی آڈٹ کرا تے ہیں اور ہماری آمدن کےذارئع، اخراجات اور فنڈ ز کے استعمال کی تفصیلات ہر وقت ادارے کے ساتھ موجود ہوتی ہیں۔’
تاہم چمکنی نے بتایا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ فلاحی اداروں کی مدد کریں کیونکہ بعض اوقات انہیں مخلتف علاقوں میں جانے کے لیے این او سی لینے کے لیے دفتروں کے چکر لگانے پڑتے ہیں۔