وفاقی وزیر داخلہ بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ نے جمعیت علمائے اسلام ۔ ف کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کی استعفے اور از سر نو انتخابات سے ’کہیں زیادہ خطرناک‘ مطالبہ فوج کے بغیر الیکشن کو قرار دیا ہے۔
منگل کو سما ٹی وی چینل سے گفتگو میں اعجاز شاہ نے کہا وہ اپوزیشن سے مذاکرات کا کوئی ٹائم فریم نہیں دے سکتے لیکن امید ہے دھرنا پرُامن طریقے سے ختم ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن کے پہلے دو مطالبے یعنیٰ وزیر اعظم کا استعفیٰ اور از سر نو انتخابات بلاوجہ ہیں، تاہم ان کی تیسری شرط کہیں زیادہ خطرناک ہے کیونکہ ’آج تک ہم یہ کہتے آئے ہیں کہ فوج کے بغیر الیکشن آزادانہ اور منصفانہ نہیں ہو سکتے لیکن اب ہم پہلی مرتبہ یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ الیکشن فوج کے بغیر ہونے چاہیں۔‘
اعجاز شاہ نے کہا کہ وہ تیسری شرط اس لیے خطرناک سمجھتے ہیں کہ فوج ایک ادارہ ہے جس پر اب تک سب کو اعتماد تھا، لیکن جب آپ کہتے ہیں کہ فوج الیکشن سے دور رہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کو اس پر اعتماد نہیں رہا جو بڑی بدقسمتی ہے۔
وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ حکومت دھرنے کے شرکا کو سہولت فراہم کر رہی ہے کیونکہ معاہدے کے تحت انہیں پنڈال سے باہر جانے کی اجازت نہیں لیکن وہ آزادانہ طور پر اطراف کے علاقوں میں گھوم پھر رہے ہیں، اس سے حکومت کی نیک نیتی ثابت ہوتی ہے۔
آج اسلام آباد میں بھرپور سیاسی سرگرمیوں کے باوجود حکومت اور اپوزیشن اتحاد کے درمیان وزیر اعظم عمران خان کے استعفے اور ملک میں از سر نو انتخابات کے مطالبوں پر ڈیڈ لاک برقرار رہا۔
وزیر اعظم عمران خان نے حکومت کی مذاکراتی کمیٹی کو مکمل اختیار دیتے ہوئے استعفے کے علاوہ کوئی بھی ’جائز اور آئینی‘ مطالبہ ماننے کی منظوری دی لیکن جمعیت علمائے اسلام ۔ ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے دھرنے سے خطاب میں کہا کہ وہ اپنے مطالبات کے تسلسل کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
ڈیڈ لاک کے خاتمے کی کوششوں کے سلسلے میں مسلم لیگ ق کے رہنما چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہیٰ پیر کی رات ہنگامی طور پر لاہور سے اسلام آباد پہنچے۔
چوہدری برادران نےمولانا فضل الرحمٰن کے علاوہ آج وزیر اعظم عمران خان سے بھی ملاقات کی، تاہم کوئی پیش رفت سامنے نہیں آ سکی۔
صبح وزیراعظم ہاؤس میں چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الہیٰ کی وزیراعظم عمران خان سے ملاقات میں معاملے کو حل کرنے کے تمام آپشنز پر بات چیت کی گئی۔
ملاقات میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی،سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، وزیر دفاع اور حکومت کی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ پرویز خٹک سمیت وزیر مذہبی امور نورالحق قادری، وزیر تعلیم شفقت محمود اور پی ٹی آئی رہنما اسد عمر شریک تھے۔
تمام صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد وزیراعظم عمران خان نےحکومت کی مذاکراتی ٹیم کو مکمل اختیار دیتے ہوئے استعفے کے علاوہ کوئی بھی جائز اور آئینی مطالبہ ماننے کی منظوری دی ہے۔
بعد ازاں اپوزیشن اتحاد کی رہبر کمیٹی کے سربراہ اکرم درانی کی رہائش گاہ پر حکومت اور اپوزیشن لیڈروں کی ملاقاتیں جاری رہیں۔
رہبر کمیٹی کی جانب سے جمعیت علمائے اسلام ف کے رہنما اکرم درانی، پاکستان پیپلز پارٹی کے نیئر بخاری اور فرحت اللہ بابر، مسلم لیگ ن کے احسن اقبال اور امیر مقام، جمعیت علمائے پاکستان کے اویس نورانی، شفیق پسروری اور عوامی نیشنل پارٹی کے میاں افتخار مذاکرات میں شریک ہوئے ۔
ملاقات کے بعد رہبر کمیٹی کے سربراہ اکرم درانی نے مشترکہ پریس کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا ’کل ہم نے اپنے مطالبات حکومتی ٹیم کے سامنے رکھے، جن میں وزیراعظم کا استعفیٰ اور نئے انتخابات شامل تھے۔ ہم اپنے مطالبات پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ حکومت چاہتی ہے کہ کوئی درمیانی راستہ نکلے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس موقع پر حکومتی ٹیم کے پرویز خٹک نے کہا: ’ہم نے بڑے اچھے ماحول میں بات چیت کی ہے۔ ہم چاہتے ہیں جو ڈیڈ لاک ہے، اسے ختم کرنے کا کوئی راستہ نکلے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’حکومت رہبر کمیٹی کی کئی چیزوں پر اتفاق کر چکی ہے۔ دونوں فریق اپنی اپنی قیادت سے مزید بات چیت کریں گے۔‘
دوسری جانب سپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہیٰ نے میڈیا سے گفتگو میں کہا: ’اچھی پیش رفت اور مزید مشاورت کے لیے کچھ وقت درکار ہے۔ استعفے میں لچک کا معاملہ بعد میں زیرِ بحث آئے گا۔ مذاکرات میں کامیابی کے لیے پُر امید ہیں، دعا کریں۔‘
’اپنے مطالبات کے تسلسل کو برقرار رکھے ہوئے ہیں‘
مولانا فضل الرحمٰن نے منگل کی رات اسلام آباد میں جاری دھرنے سے خطاب میں کہا کہ وہ اپنے مطالبات کے تسلسل کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا: ’حکومت کو جتنا وقت ملے گا، روزانہ کی بنیاد پرملک اُتنا ہی نیچے جاتا رہے گا، پہلی بار پاکستان میں ایک سال میں تین بجٹ پیش کیے گئے اور پہلی بار سٹیٹ بینک نے بیان جاری کیا، وہ ایک ارب روپے کے خسارے میں چلےگئے۔
آج اپنے خطاب میں مولانا فضل الرحمٰن نے خارجہ امور پر بھی گفتگو کی اور پی ٹی آئی حکومت پر الزام عائد کیا کہ اس نے چین کی سرمایہ کاری کو غارت کردیا، ایران ہمارے مقابلے میں بھارت کو اہمیت دے رہا ہے جبکہ افغانستان کے ساتھ اعتماد نہیں رکھ سکے ہیں۔
انہوں نے کہا لوگوں کو توقع نہیں تھی کہ مذہبی جماعت کا منشور اتنا ترقی پسند ہوگا، ہمارا منشور صوبائی خودمختاری کی بات کرتا ہے۔’دنیا کو بتا دیا احتساب کے نام پر انتقام کا ڈراما مزید نہیں چل سکے گا۔‘
’2014 میں ڈی چوک پر دھرنے پر اعتراض نہیں تھا ، لیکن ہمارے آزادی مارچ پر انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔‘
جے یو آئی کے سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ ان کا کسی سے جھگڑا نہیں لیکن ملک کو اصول کی بنیاد پر چلایا جائے۔ ’دبیز پردوں میں سیاست چلے گی تو مشکلات آئیں گی انصاف نہیں ہوگا، ظلم ہوگا۔‘
انہوں نے کہا کئی لوگ دہشت گردی کے نام پراٹھائے گئےاور تاحال لاپتا ہیں۔’کیا کسی ادارے کویہ حق حاصل ہے کہ شک کی بنیاد پرکوئی بھی شخص 12 ،12سال غائب رہے۔‘
’کچھ قوتیں آئے روز محلاتی سازشوں سےپاکستانی عوام کی قسمت سے کھیل رہی ہیں۔‘
مولانا فضل الرحمٰن نے خطاب کے دوران گذشتہ انتخابات میں مبینہ دھاندلی پر بھی گفتگو کی اور کہا ’ہم نے چور کو دن دہاڑے چوری کرتے پکڑا اب کہتے ہیں تحقیقات کرلی کہ میں چورہوں یا نہیں۔‘
انہوں نے الزام عائد کیا کہ95 فیصد پولنگ سٹیشنز پر ان کے پولنگ ایجنٹوں کو قانون فارم پر نتائج نہیں ملے۔
رہبر کمیٹی کو حکومت کی جانب سے چار آپشنز
ذرائع کے مطابق حکومتی مذاکراتی ٹیم نے رہبر کمیٹی کو چار آپشن دیے ہیں۔
1۔ دھاندلی کی تحقیقات کے بارے میں پارلیمانی کمیٹی فعال کرنے کی پیشکش۔
2۔ دھاندلی کے بارے میں کسی بھی حلقے میں اعتراض ہے تو اسے کھولنے کو تیار ہیں۔
3۔ الیکشن کمیشن کو اپوزیشن کی رائے کے مطابق مضبوط کرنے پر رضامندی۔
4۔ انتخابی عمل میں فوج کی موجودگی کے حوالے سے رہبر کمیٹی کے اعتراض پر آپشن دیا گیا کہ فوج کا کام امن و امان بہتر کرنا ہے، اس کے کردار کے بارے میں سپریم کورٹ سے رجوع کرسکتے ہیں۔
تاہم حکومتی مذاکراتی ٹیم نے وزیراعظم کے استعفے اور نئے انتخابات کا مطالبہ مسترد کردیا۔ دوسری جانب رہبر کمیٹی نے حکومتی تجاویز پر مشاورت کے لیے مزید وقت مانگ لیا۔
حکومتی ٹیم ڈیڈ لاک کے بعد اب دوبارہ وزیراعظم سے مشاورت کرے گی جب کہ اپوزیشن جماعتیں بھی مولانا فضل الرحمٰن سے موجودہ صورت حال پر رائے لیں گی۔
چوہدری برادران کی مفاہمت ماضی کے تناظر میں
ماضی میں منظر عام پر آنے والی خبروں کے مطابق گذشتہ 14سال کے دوران چوہدری شجاعت حسین نے ملک کی متحارب سیاسی قوتوں میں مفاہمت کی کم از کم تین بار کوششیں کیں۔
پہلی بار 17مارچ 2005 کو جب بگٹی قبائل اور نیم فوجی دستوں کے درمیان جھڑپوں میں 70افراد مارے گئے تھے اس وقت بھی چوہدری شجاعت نے نواب اکبر بگٹی سے مذاکرات کیے جس کے نتیجے میں اکبر بگٹی نے ناکہ بندی ختم کرنے کا اپنے قبائل کو حکم دیا۔ سردار شیر علی مزاری، براہمداغ بگٹی اور تابش بگٹی کی موجودگی میں تنازعات کے حل کے لیے کمیٹی بنائی گئی لیکن یہ بھی تاریخ ہے کہ نواب اکبر بگٹی کوہلو میں واقع اپنی پناہ گاہ میں فوجی آپریشن کے دوران اپنے 26 جانبازوں کے ساتھ مارے گئے تھے۔
دوسری مرتبہ 3 سے 11جولائی 2007 تک جب سکیورٹی اداروں نے اسلام آباد میں لال مسجد کا محاصرہ کیا۔ اس دوران چوہدری شجاعت حسین نے اس وقت کے وزیر مذہبی امور اعجاز الحق ودیگر وزرا محمد علی درانی اور طارق عظیم کے ساتھ مل کر عبدالرشید غازی سے مذاکرات کی کوشش کی لیکن مذاکرات ناکام رہے۔
اور تیسری بار جنوری 2013 میں پیپلز پارٹی قیادت کی درخواست پر چوہدری شجاعت حسین اور پرویز الٰہی نے پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہرالقادری کو 14تا 17جنوری 2013 کو پیپلز پارٹی حکومت کے خلاف اپنا لانگ مارچ ترک کرنے پر قائل کرنے کی کوشش کی۔
اس دوران معروف سرمایہ دار ملک ریاض بھی طاہر القادری سے ملنے گئے تھے لیکن انہیں ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی جبکہ طاہر القادری نے چوہدری برادران کو بھی صاف انکار کر دیا اور اسلام آباد میں دھرنا دیاتھا۔
دیکھنا یہ ہے کہ اس بار چودھری برادران کی مفاہمتی پالیسی کس حد تک کامیاب ہوتی ہے یا اسکے نتائج بھی ماضی کی طرح وقتی مٹی پاو والے ہی ہوں گے۔