آزادی مارچ اسلام آباد میں براجمان ہے اور ہر طرف طرح طرح کے فرضی منصوبے زیرے بحث ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مولانا صاحب اس پر بضد ہیں کہ استعفی لے کر جاؤں گا جبکہ ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ بڑے جمہوری اور آئینی ہیں۔
دوسری طرف یو ٹرن کے ماہر اور سیاسی انجینرنگ کے شاہکار عمران خان ہیں وہ بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ استعفی نہیں دوں گا جبکہ وہ کسی نوکری پر لگے ہوئے نہیں ہیں بلکہ تحریک عدم اعتماد کی صورت میں ہٹائے جاسکتے ہیں۔
تحریک عدم اعتماد اس لیے کامیاب ہو سکتی ہے کہ جو موسمی بٹیرے ان کے اردگرد بھیجے گئے تھے انہیں اشارہ ہو سکتا ہے کہ اڑ جائیں۔ عمران خان کا بھی یہ دعوی ہے کے بڑے جمہوری مزاج کے ہیں مگر جب سے سیاست میں آئے ہیں ہر وقت وردی والوں کی خدمت کو تیار رہتے ہیں۔ اتنی دفعہ اس کی مثالیں دی جا سکی ہیں کہ میں آپ کا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا انہیں دوہرا کر۔
غرض یہ کہ آزادی مارچ کرنے والے اور ان کے مخالف دونوں زبانی طور پر تو کافی جمہوری اور نظریاتی ہیں مگر ان کے ماضی کے تقریباً تمام فیصلے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ان لوگوں کا جمہوریت اور عوام سے دور دور تک کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ یہ ہر وقت طاقت کے حصول کے لیے ہر اصول اور نظریہ کی قربانی دینے کو تیار رہتے ہیں بلکہ اگر اس مقصد میں کچھ غریب عوام کی جان بھی چلی جائے تو انہیں اس کا زیادہ غم نہیں ہوتا۔
پچھلے 70 سال میں سینکڑوں لوگ ان نقلی جمہوری تحریکوں اور اشرافیہ کی طاقت کی کشمکش میں اپنی جان دی چکے ہیں مگر ان کے ہاتھ ہمیشہ خالی ہی رہے۔ جاری آزادی مارچ میں بھی جو ڈیل ہوگی وہ صرف حکمران اشرافیہ کے مفادات کے لیے ہوگی۔ میں نے حزب اختلاف کو کچھ تجاویز بھیجیں ہیں اور ساتھ ہی انہیں یہ بھی واضع کر دیا کے کہ اگر مذاکرات کے بعد معاہدہ صرف چند لوگوں کے مفاد میں ہوگا تو اس کا عوامی سطح پر مکمل اختلاف کیا جائے گا اور اس کے خلاف تحریک چلائی جائے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان کی ایک حقیقت یہ ہے کہ موجودہ غیر جمہوری سیاسی پارٹیوں نے نظام اس طرح کا بنایا ہے کہ وہ ہمیشہ دھاندلی زدہ الیکشن کے ذریعہ اقتدار پر قابض رہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے کہ آج تک کسی ایک افسر کو بھی الیکشن میں فرائض ادا نہ کرنے پر کڑی سزا نہیں دی گئی۔ کوئی ایک بھی پارٹی یہ نہیں چاہتی کہ موجودہ نظام میں دور رس تبدیلیاں کی جائیں تاکہ وہ عوام کے مینڈیٹ کو یقینی بنائیں۔ اگر ایسا ہوا تو موجودہ پارٹیوں میں سے کوئی ایک بھی پارلیمان میں اکثریت حاصل نہیں کر پائے گی۔
2018 میں جب الیکشن قوانین کا مسودہ لکھا گیا تو میں نے پارلیمانی کمیٹی کو ماہرین سے مشاورت کے بعد تجاویز بھیجیں مگر وعدے کے باوجود انہوں نے ان میں سے کسی پر بھی غور نہیں کیا۔ بلکہ پرانے قوانین میں ہی تھوڑی لیپا پوتی کر کے اسے ایک نئے قانون کے طور پر پیش کیا۔ آج جو انجینرنگ اور دھاندلی زدہ پارلیمان ہے وہ اسی الیکشن قانون کی پیداوار ہے جسے انہیں سیاستدانوں نے بنایا تھا۔
جمہوریہ کا مکمل نظام اس طرح بنایا گیا ہے کہ چند مخصوص طبقات کا ملک اور اس کے کل وسائل پر قبضہ رہے مگر المیہ یہ ہے کہ اس کے باوجود حکمران اشرافیہ امن کے ساتھ نہیں رہ سکتی اور ہر دوسری سال دھرنے ڈال کر عوام کی زندگیوں کو اجیرن بناتی رہتی ہے۔ یہ صورت حال اب مزید برداشت کے قابل نہیں ہے اور اس اشرفیہ سے چھٹکارا حاصل کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ نئی جمہوریہ میں ہمیں ناصرف موجودہ ڈھانچے کو بدلنا ہوگا بلکہ اس بات کو بھی یقینی بنانا ہوگا کہ سیاسی پارٹیاں اپنے اندر بھی جمہوری روایات کی روادار اور علم بردار ہوں۔ نئی جمہوریہ میں یہ ممکن نہیں ہوگا کہ پارٹیاں کسی ایک خاندان کی جاگیر ہوں اور باپ کے بعد بیٹی اور ماں کے بعد بیٹا اس کا چئرمین بن جائے۔ اگر بچوں میں صلاحیت ہے تو وہ تحصیل سے اپنی سیاست شروع کریں اور پھرترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے چئرمین کے عہدے تک پہنچیں۔ مجھے اس بات کا دکھ ہے کہ نواز شریف اپنے آپ کو قوم کا رہنما تو کہتے ہیں لیکن انہیں فکر صرف اپنی بیٹی کے مستقبل کی ہے اور قوم کی بیٹیاں دوسرے درجے پر آتی ہیں۔ نئی جمہوریہ میں ہمیں اس روایت کو بدلنا ہوگا۔
موجودہ آزادی مارچ قوم کے لیے نہیں ہے مگر شاید اس اشرافیہ کے اقتدار کی جنگ میں عوام ایک نئی جمہوریہ کے لیے راستہ نکال لیں یہی حقیقی نیا پاکستان ہوگا اور نظام میں ایک گہری تبدیلی ہوگی۔