آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے بعد چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے عہدے پر نئی تقرری کا وقت قریب ہے۔ اس وقت جنرل زبیر محمود حیات اس عہدے پر تعینات ہیں۔ اصولاً اس عہدے پر نیوی، ایئرفورس اور آرمی کے فور سٹار آفیسرز کی باری باری تقرری ہونی چاہیے۔ آخری مرتبہ ایئرفورس سے ایئر چیف مارشل فیروز خان اس عہدے پر 1994 میں فائز ہوئے لیکن اس کے بعد سے مختلف حکومتیں سول ملٹری تعلقات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اس پوسٹ پر بھی آرمی سے ہی تقرری کرتی ہیں۔
اس وقت نیوی میں ایڈمرل ظفرعباسی چیف آف نیول سٹاف ہیں۔ اس سے پہلے وہ وائس چیف آف نیول سٹاف کی ذمہ داریاں سنبھالنے سمیت کمبائنڈ ٹاسک فورس 150 اور پاکستان میرین کو بھی کمانڈ کر چکے ہیں۔ تقرری کے وقت وہ نیوی کے سینیئر ترین افسر تھے، اس لیے ان کی ترقی سے کوئی افسر سپر سیڈ نہیں ہوا تھا جب کہ فضائیہ میں چیف آف ایئر سٹاف ایئر چیف مارشل مجاہد انور خان ہیں جو قبل ازیں ڈپٹی چیف آف ایئر سٹاف، ڈی جی ایئرفورس سٹریٹجک کمانڈ رہے۔ وائس ایئر چیف مارشل فاروق حبیب کو سپر سیڈ کرکے انہیں 2018 میں چیف مقرر کیا گیا۔
تاریخ اور اصول کو سامنے رکھا جائے تو اس مرتبہ ایئر فورس یا نیوی سے اس عہدے پر تقرری کرکے وزیراعظم عمران خان روایت کو زندہ کر سکتے ہیں لیکن ایسا غیر معمولی قدم اٹھانا ان کے لیے کسی امتحان سے کم نہیں کیونکہ وہ پہلے ہی آرمی چیف کے عہدے پر جنرل قمر جاوید باجوہ کو توسیع دے چکے ہیں۔ اس تناظر میں آرمی افسران میں سے کسی ایک کی فور سٹار عہدے پر ترقی اہمیت کی حامل ہے۔
پاکستان آرمی کی 72 سالہ تاریخ میں صرف 31 افسران کو فور سٹار یعنی فل جنرل بننے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس لیے چار ستارہ جنرل بننے کے لیے کسی نام کا زیرِ غور آنا بھی خوش قسمتی تصور کیا جاتا ہے۔
موجودہ سینیئر افسران میں سب سے اوپر ڈائریکٹر جنرل سٹریٹجک پلانز ڈویژن لیفٹیننٹ جنرل سرفراز ستار ہیں جو قبل ازیں کور کمانڈر ملتان رہ چکے ہیں۔ بطور ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس انہوں نے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے ساتھ بھی کام کیا، جنرل کمانڈنگ آفیسر سیالکوٹ اور دہلی میں ملٹری اتاشی بھی رہے۔ جنرل راحیل شریف نے اپنی ریٹائرمنٹ سے پہلے 2016 میں انہیں تھری سٹار جنرل کے عہدے پر آخری ترقی دی اور 2019 کی ترقیوں کے لیے ایک نام تجویز کرگئے۔ اگر سنیارٹی کو اصول بنایا جائے تو وہ موزوں نظر آتے ہیں۔ چونکہ جنرل باجوہ نے تین سال اپنی منتخب کردہ کور ٹیم کے ساتھ کام کیا ہے، اس لیے امکان ہے کہ جنرل باجوہ کی ترجیحات ذرا مختلف ہو سکتی ہیں۔
فہرست میں دوسرے نمبر پر راولپنڈی کے علاقے واہ کی سید فیملی سے تعلق رکھنے والے لیفٹیننٹ جنرل ندیم رضا ہیں۔ آرمی چیف بننے سے قبل جنرل باجوہ آئی جی ٹریننگ کے عہدے پر فائز تھے، اس وقت جنرل ندیم رضا کمانڈنٹ پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول تھے۔ انہی دنوں جنرل باجوہ ان کی صلاحیتوں کے معترف ہوئے اور آرمی چیف بننے کے بعد جب 24 میجر جنرلز کو سپر سیڈ کرکے اپنی کور ٹیم کا انتخاب کیا تو میجر جنرل ندیم رضا کو ترقی دے کر ٹیم کا حصہ بنایا۔ جنرل ندیم رضا پہلے کور کمانڈر راولپنڈی اور اب چیف آف جنرل سٹاف کے عہدے پر فائز ہیں، اس لیے انہیں آرمی چیف کے معتمد کے طور پر جانا جاتا ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل ندیم رضا بطور میجر جنرل کمانڈنٹ پی ایم اے کاکول، کمانڈنگ آفیسر وزیرستان اور بطور بریگیڈیئر منگلا کور کے چیف آ ف سٹاف رہ چکے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سنیارٹی لسٹ میں تیسرے نمبر پر لیفٹیننٹ جنرل ہمایوں عزیز اس وقت کور کمانڈر کراچی ہیں۔ اس سے پہلے وہ آئی جی کمیونیکیشن اینڈ آئی ٹی رہے۔ بطور میجر جنرل ایک انفنٹری اور ایک آرٹلری ڈویژن کمانڈ کر چکے ہیں۔ ملتان کی راجپوت رانا فیملی کے لیفٹیننٹ جنرل ہمایوں عزیز کے ایک بھائی شیرباز عزیز بھی کرنل کے عہدے پر فائز رہے۔ ان کی بہن رفعت عزیز جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کی رکن ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی پانے سے پہلے وہ جی ایچ کیو میں ڈی جی ویلفیئر اینڈ ری ہیبلی ٹیشن تھے۔ عموماً اس پوسٹ پر تعینات افسر کو سپر سیڈ کردیا جاتا ہے یا پھر سپر سیڈ ہوجانے والے افسر کو یہ ذمہ داری دی جاتی ہے لیکن جنرل ہمایوں عزیز کے معاملے میں بالکل مختلف ہوا اور انہیں ماضی کے ریکارڈ کی بنا پر ترقی ملی۔ قابلِ غور یہ ہے کہ کیا ایک بار پھر وہ ترقی حاصل کر پائیں گے؟
فہرست میں چو تھے نمبر پر کور کمانڈر ملتان لیفٹیننٹ جنرل نعیم اشرف ہیں۔ ان کا آبائی تعلق گوجر خان کے بھٹی خاندان سے ہے۔ کور کمانڈر کوئٹہ لیفٹیننٹ جنرل وسیم اشرف اور بریگیڈیئر ندیم اشرف ان کے بھائی ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل نعیم اشرف اس سے قبل چیئرمین ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا، چیف انسٹرکٹر نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد، ایک ڈویژن کے جنرل آفیسر کمانڈنگ اور دو مرتبہ بریگیڈ کمانڈز کی ذمہ داریاں ادا کر چکے ہیں۔
یہاں اہم نکتہ یہ ہے کہ فہرست کے پہلے چار اہم ناموں میں سے لیفٹیننٹ جنرل ندیم رضا اور لیفٹیننٹ جنرل ہمایوں عزیز اپنی ذمہ داریوں کی بنیاد پر مسلسل تین سال سے کور کمانڈرز کانفرنس کا حصہ ہیں، جب کہ لیفٹیننٹ جنرل سرفراز ستار اور لیفٹیننٹ جنرل نعیم اشرف ایک سے دو سال کور کمانڈرز کانفرنس میں شامل نہیں رہے۔
فہرست میں نمبر پانچ پر چیئرمین نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی لیفٹیننٹ جنرل محمد افضل ہیں جو ڈی جی فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن رہ چکے ہیں۔ انجینئرنگ کور سے ہونے کی وجہ سے ان کا نام اس عہدے کے لیے زیرِغور نہیں ہوگا۔
آئی جی ٹریننگ لیفٹیننٹ جنرل شیر افگن فہرست میں چھٹے نمبر پر ہیں۔ وہ بہاولپور کے کور کمانڈر، آئی جی ایف سی بلوچستان اور ملٹری انٹیلی جنس میں ڈائریکٹر رہ چکے ہیں۔ جب جنرل باجوہ کور کمانڈر راولپنڈی تھے، اُس وقت لیفٹیننٹ جنرل شیر افگن بطور جنرل آفیسر کمانڈنگ جہلم ان کی کمانڈ میں رہ چکے ہیں۔
ساتویں نمبر پر لیفٹیننٹ جنرل قاضی محمد اکرام کمانڈر سٹریٹیجک فورس کمانڈ ہیں۔ ماضی میں وہ چیف آف لاجسٹک سٹاف، ڈی جی پرسنل سروسز اور جنرل آفیسر کمانڈنگ اوکاڑہ رہے۔ اب تک چونکہ انہوں نے کوئی کور کمانڈ نہیں کی، اس لیے ترقی کے لیے ان کے امکانات کم ہیں۔
فہرست میں نمبر آٹھ پر لیفٹیننٹ جنرل بلال اکبر ہیں جو پاکستان آرڈننس فیکٹریز کے چیئرمین ہیں۔ اس سے پہلے وہ کور کمانڈر راولپنڈی، چیف آف جنرل سٹاف، ڈی جی رینجرز سندھ، جنرل آفیسر کمانڈنگ (جی او سی) لاہور اور بریگیڈ کمانڈر رہ چکے ہیں۔ ان کا نام آٹھویں نمبر پر ہے، تاہم وزیراعظم عمران خان اگر سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی طرح غیر متوقع انقلابی فیصلہ کریں تو ان کا نام زیرغور آ سکتا ہے۔
کیا موجودہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل زبیر حیات کو بھی مدتِ ملازمت میں توسیع مل سکتی ہے؟ اس عہدے پر تقرریوں کی تاریخ کے تناظر میں اس کا جواب نفی میں ہے کیونکہ ماضی میں آرمی چیفس کو توسیع تو ملتی رہی لیکن ہر بار اس عہدے پر نئی تقرری کی جاتی ہے تاکہ ترقیوں کا سلسلہ بالکل جمود کا شکار نہ ہو۔