آج سے ٹھیک دس سال پہلے دس اکتوبر 2009 کو راولپنڈی میں پاکستان آرمی کے صدر دفتر جی ایچ کیو پر دہشت گردوں نے حملہ کیا جو 11 اکتوبر کو اپنے انجام تک پہنچا۔
پاکستانی تاریخ کے اس انوکھے واقعے میں 16 فوجی افسران اور اہلکار جان سے گئے۔ اس حملے کے مرکزی کردار عقیل عرف ڈاکٹر عثمان کو آرمی پبلک سکول پشاور حملے کے بعد دسمبر 2014 میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔
حیران کن بات یہ ہے کہ ڈاکٹر عثمان ہائی سکیورٹی جیل فیصل آباد میں سزائے موت پانے والے قیدیوں کی کال کوٹھڑی میں ہوتے ہوئے بھی بیرونی دنیا سے رابطے میں تھے اور خطوط کے ذریعے پیغامات کا تبادلہ کرتے تھے۔ ایک خفیہ خط میں انہوں نے جی ایچ کیو حملے کی روداد اپنے ساتھیوں کو بھیجی اور یہ تحریر القاعدہ اور تحریک طالبان پاکستان کے اہم رہنماؤں تک پہنچائی گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہی نہیں بلکہ انہی ڈاکٹر عثمان کا ایک تفصیلی مضمون جہادی رسالے ’افغان جہاد‘ میں ’معرکۂ مقر (جی ایچ کیو) کی سنسنی خیز ایمان افروز سچی کہانی‘ کے عنوان سے شائع ہوا جس میں انہوں نے تمام واقعے کی لمحہ بہ لمحہ تفصیل فراہم کی۔
خفیہ خط میں حملہ آوروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مابین مذاکرات میں کالعدم تنظیموں کے رہنماؤں کے کردار کا تذکرہ بھی اہمیت کا حامل ہے۔ ڈاکٹر عثمان کی جی ایچ کیو حملے سے متعلق مخصوص تحریر سے حساس مقامات اور معلومات کا ذکر حذف کیا گیا ہے اور حملے کے دوران ہونے والے مذاکرات کی کہانی سے اُس دن ہونے والے واقعات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
ڈاکٹر عثمان کے مطابق ’ان کے تمام جنگجو ساتھی، جو تعداد میں دس تھے، فوجی وردیوں میں ملبوس تھے اور وہ جس گاڑی پر سوار تھے اس پر جی ایچ کیو انٹری کا جعلی سٹیکر لگا ہوا تھا۔ دہشت گردوں کا مقابلہ ٹینک چوک چیک پوسٹ پر شروع ہوا۔ فوجی اہلکاروں نے گولیوں کے تبادلے میں دس میں سے پانچ جنگجو آغاز میں ہی مار دیے۔‘
’اس مزاحمت کے بعد یہ جنگجو جی ایچ کیو کے ایک حصے میں داخل ہوئے، جہاں ان سے مقابلہ کرتے ہوئے ملٹری انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر بریگیڈیئر انوار الحق رمدے، لیفٹیننٹ کرنل وسیم عامر اور دیگر جوان مارے گئے، مگر اس کے بعد حملہ آوروں نے وہاں موجود افراد کو یرغمال بنا لیا اور فائرنگ کا سلسلہ رک گیا۔‘
اس صورت حال کے بعد ایک یرغمالی کے فون کے ذریعے مذاکرات شروع ہوئے۔ جب سکیورٹی نمائندوں نے مرکزی مجرم عقیل عرف ڈاکٹر عثمان کو ان کے نام سے پکارا تو وہ حیران رہ گئے کہ ہمارے نام اتنی جلدی ان تک کیسے پہنچ گئے۔
فون رابطے کے بعد ڈاکٹر عثمان نے طالبان قیدیوں کی رہائی، وزیرستان آپریشن کے خاتمے، عافیہ صدیقی کی رہائی جیسے مطالبات سامنے رکھے۔ ڈاکٹر عثمان کے مطابق مذاکرات کے دوران ان کی بات محمد احمد لدھیانوی سے کروائی گئی۔ ’محمد احمد لدھیانوی نے کہا کہ میں ’ملت اسلامیہ پاکستان‘ (اس وقت سپاہ صحابہ کا نام) کا امیر محمد احمد لدھیانوی ہوں۔ بند کرو یہ ڈراما اور ہتھیار پھینک دو!‘
اس موقعے پر دونوں میں تلخ کلامی بھی ہوئی اور ڈاکٹر عثمان نے حق نواز جھنگوی اور اعظم طارق کے بے باک موقف کی مثالیں دیں جبکہ محمد احمد لدھیانوی نے پاکستان فوج کے موقف کے حق میں دلائل دیے جنہیں ڈاکٹرعثمان نے ماننے سے انکار کر دیا اور لدھیانوی کو فوج اور ایجنسیوں کا ہمدرد قرار دیا۔ دونوں میں آدھا گھنٹہ گفتگو رہی مگر کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکی۔
اس ناکامی کے بعد ڈاکٹر عثمان سے کالعدم لشکر جھنگوی کے سربراہ ملک اسحاق کی فون پر بات کروائی گئی۔ لاہور میں قید ملک اسحاق کو خصوصی طیارے کے ذریعے اسی مقصد کے لیے لایا گیا تھا کیونکہ پنجابی طالبان کی اکثریت ملک اسحاق کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی تھی۔
ملک اسحاق نے بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا: ’آپ لوگ لشکر (لشکر جھنگوی) کے نہیں لگتے، آپ کس گروپ کے ہیں؟‘
ڈاکٹر عثمان نے جواب دیا: ’ہاں، ہم لشکر سے نہیں ہیں، ہمارا تعلق تحریک طالبان امجد فاروقی گروپ سے ہے۔‘
اس بات سے یہ تاثر ختم ہو گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق لشکرِ جھنگوی سے تھا کیونکہ ایک دہشت گرد نے دعویٰ کیا تھا کہ ہمارا تعلق لشکر جھنگوی سے ہے۔ ملک اسحاق اور ڈاکٹرعثمان کی گفتگو کچھ دیر جاری رہی، جب کوئی نتیجہ نہیں نکلا تو ملک اسحاق نے سارامعاملہ ڈاکٹر عثمان کی صواب دید پر چھوڑ دیا۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ڈاکٹر عثمان نے اپنی تحریر میں ملک اسحاق کو احتراماً ’ملک صاحب‘ لکھا ہے۔ ان دو رہنماؤں کے علاوہ کالعدم جیش محمد کے عبدالرؤف اصغر (مسعود اظہر کے چھوٹے بھائی) اور کالعدم حرکت المجاہدین کے فضل الرحمٰن خلیل کو بھی مذاکرات میں شریک کیا گیا۔
بات چیت کے نتیجے میں یرغمالیوں کے لیے کھانا بھجوانے پر اتفاق ہوا اور کھانے کی منتقلی پر مشکلات کا سامنا نہیں ہوا۔
کھانا لے جانے والوں کی رپورٹ سے بھی جوابی آپریشن میں مدد ملی۔ بظاہر مذاکرات کا مقصد کامیاب آپریشن تک جنگجوؤں کو مصروف رکھنا اور وقت حاصل کرنا تھا تاکہ یرغمالیوں کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ محمد احمد لدھیانوی، ملک اسحاق سمیت دیگر رہنماؤں سے مذاکرات نما گفتگو کے بعد سکیورٹی نمائندوں نے ڈاکٹر عثمان کو فون پر مختلف باتوں میں مصروف رکھا، اس طرح وقت گزرتا گیا۔
رات کے آخری پہر یک دم بجلی چلی گئی اور ایس ایس جی کمانڈوز نے آپریشن شروع کر دیا۔
فائرنگ کے تبادلے میں چار مزید حملہ آور مارے گئے اور یرغمالیوں نے اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر بھاگنا شروع کر دیا۔
کارروائی کا اختتام ایک زوردار دھماکے پر ہوا۔ اس دھماکے کے بارے میں ایک رائے یہ ہے کہ عمارت کو بارود لگا کر تباہ کر دیا گیا تاکہ کوئی دہشت گرد بھی زندہ نہ بچے۔
دوسری رائے یہ ہے کہ ڈاکٹر عثمان وہاں سے بھاگ نکلے تھے لیکن انہوں نے اپنی خودکش جیکٹ دوسرے کمرے میں رکھ کر اڑا دی تاکہ یہ تاثر جائے کہ وہ بھی مر گئے ہیں۔
ادھر ریسکیو آپریشن میں لاشوں اور زخمیوں کو جمع کیا جا رہا تھا، اُدھر ڈاکٹر عثمان اپنی جعلی فوجی وردی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں سے فرار ہونے لگے لیکن چیک پوسٹ پر پکڑے گئے۔
عقیل عرف ڈاکٹر عثمان کے خط میں سچ اور جھوٹ یا مبالغہ آرائی کو ہرگز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا لیکن اُس دن ہونے والے مذاکرات میں شریک اکثر افراد نے اس موضوع پر خاموشی کو ہی بہتر سمجھا اور باضابطہ طور پر کسی نے انہیں تسلیم کرنے سے گریز کیا۔ اسی باعث ایسے حساس معاملات کی تفصیل اکثر تاریخ کے دھندلکوں میں گم ہو جاتی ہے۔