حکومتِ پاکستان نے کہا ہے کہ خیبر پختونخوا میں فوج کے زیر انتظام حراستی مراکز میں بند لوگوں پر تشدد نہیں بلکہ اصلاح کی جاتی ہے۔
سپریم کورٹ کے پانچ رُکنی لارجر بینچ نے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جمعرات کو ان حراستی مراکز سے متعلق ایک کیس کی سماعت کی۔
چیف جسٹس کھوسہ نے فاٹا پاٹا ایکٹ آرڈیننس سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران کہا ’امریکہ نے گوانتاناموبے جیل اپنی حدود سے باہر غیر ملکیوں کے لیے بنائی لیکن ہم نے اپنے ملک کے شہریوں کے لیے جیلیں بنا دی ہیں۔‘
سپریم کورٹ میں حراستی مراکز کا معاملہ 2013 کے بعد اب دوبارہ زیر سماعت آیا ہے، کیونکہ چیف جسٹس افتخار چوہدری کی ریٹائرمنٹ کے بعد حراستی مراکز کا معاملہ کئی سالوں تک دوبارہ نہیں سنا جا سکا۔
اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے لاپتہ افراد اور حراستی مراکز سے متعلق ازخود نوٹس لیا تھا، جس کے بعد اعلیٰ عدالت کے حکم پر لاپتہ افراد کو چہرے ڈھانپ کر بند کمرے میں عدالت کے روبرو پیش کیا گیا تھا۔
مئی 2019 میں فاٹا پاٹا آرڈیننس کے تحت 2011 کے ایکشن اِن ایڈ سول پاور کو غیر معینہ مدت کے لیے توسیع دی گئی، جسے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔
گذشتہ روز اس کیس کی تازہ پیش رفت میں عدالت نے ملک میں موجود حراستی مراکز کی تفصیل، قیدیوں کی فہرستوں کے ساتھ طلب کی تھی۔ مذکورہ تفصیل آج اٹارنی جنرل آف پاکستان نے سربمہر لفافے میں عدالت کے سامنے پیش کی، جسے خفیہ دستاویز ہونے کے باعث عدالت نے دوران سماعت نہیں کھولا بلکہ مخفوظ کر لیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کمرہِ عدالت میں انسانی حقوق کی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد کی کافی تعداد موجود تھی۔ اس کے علاوہ سابقہ فاٹا سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی علی وزیر اور محسن داوڑ بھی موجود تھے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ’یہ موجودہ دور کا اہم ترین اور سب سے بڑا آئینی مقدمہ ہے۔ کئی ہزار خاندانوں کا مستقبل اس کیس سے جڑا ہوا ہے‘۔ اس کے جواب میں اٹارنی جنرل نے کہا ’کئی کروڑ لوگوں کے تحفظ کے لیے چند افراد کو حراست میں رکھا گیا ہے۔‘
جس پر چیف جسٹس نے برجستہ کہا ’کروڑوں لوگوں کے تحفظ کے لیے ایک بھی بلاوجہ گرفتار ہوا تو میں اس ایک شخص کا ساتھ دوں گا کیوں کہ بلاوجہ گرفتار شخص کی واحد وارث عدالت ہی ہوتی ہے۔‘
دوران سماعت چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ ’فوج کو 2008 میں کس مقصد کے لیے طلب کیا گیا تھا؟ فوج نے آتے ہی حراستی مراکز تو نہیں بنائے ہوں گے؟‘
اس پر اٹارنی جنرل نے تفصیل سے بتایا کہ ’فوج کو 2008 میں سول انتظامیہ کی مدد کے لیے بلایا گیا تھا، حراستی مراکز 2011 میں بنائے گئے۔ جولائی 2015 میں بھی فوج کو طلب کی گیا تھا۔‘
چیف جسٹس نے کہا ’اس کا مطلب ہے 2008 سے 2011 تک فوج بغیر کسی قانون کے کام کرتی رہی؟‘ عدالت نے فوج طلب کرنے پر وزارتِ دفاع کے جواب کی نقل بھی طلب کی اور کہا ’وزارت دفاع کے جواب سے ہی فوج کے مینڈیٹ کا اندازہ ہو گا۔‘
دورانِ سماعت آرڈیننس کی قانونی حیثیت پر اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا ’قانون کے مطابق واپس طلب کرنے تک فوج کی موجودگی برقرار رہتی ہے۔ چوں کہ قدرتی آفات، نقص امن، بحالی اور آباد کاری کے لیے فوج کو طلب کیا جاتا ہے۔‘
انہوں نے کہا ’قانون 2011 میں بنا لیکن اس کا نفاذ پچھلی تاریخوں سے کیا گیا۔ قانون کے مطابق حراست میں لینے کے لیے گورنر یا اس کا نامزد افسر حکم دے سکتا ہے اور گورنر کو اختیار ہے کہ حراستی مرکز کا انچارج مقرر کرے۔‘
جسٹس قاضی فائز عیسی نے استفسار کیا کہ ’حراستی مراکز کے سربراہ سویلین ہیں یا فوجی؟ جس پر اٹارنی جنرل مبہم جواب دیتے ہوئے کہا کہ صوبائی جیل حکام حراستی مراکز کے انچارج ہیں۔‘
اٹارنی جنرل نے مزید بتایا کہ ’زیر حراست شخص کے اہل خانہ رہائی کی درخواست دے سکتے ہیں۔ درخواست ملنے پر مجاز افسر انکوائری کرتا ہے، جس کی انکوائری رپورٹ پر زیر حراست شخص کی رہائی کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔‘
جسٹس گلزار احمد نے سوال اُٹھایا کہ ’کیا پہلے حراست میں رکھنا اور پھر قانون کے حوالے کرنا دوہری سزا نہیں؟‘
اٹارنی جنرل نے جواب دیا ’کسی کو حراست میں رکھنا سزا نہیں۔‘ اس جواب پر جسٹس فائز عیسی نے کہا ’آپ کی بات پر حیرت ہے کہ حراست میں رکھنا سزا نہیں۔‘
چیف جسٹس نے دستاویز کا بغور جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ آرڈیننس کے مطابق شواہد کو قانونِ شہادت سے بھی بالاتر قرار دیا گیا ہے، آرڈیننس کے مطابق فوجی افسر یا اس کے نمائندے کی گواہی سزا کے لیے کافی ہوگی۔
انہوں نے کہا ’ایسے تو عدالتوں سے بری ہونے والوں کو بھی حراستی مراکز میں ہی رکھ لیں۔ ایسا قانون ہے تو پھر ٹرائل کی کیا ضرورت؟ کہاں لکھا ہے کہ فوجی کی گواہی کسی کو سزا دلوانے کے لیے ٹھوس ثبوت ہے؟‘
چیف جسٹس نے مثال سناتے ہوئے کہا ’نیویارک میں اقوام متحدہ کی عمارت کے باہر اُن کے ساتھ دوسرے ممالک کے ججز بھی موجود تھے۔ ایک جج نے کہا فلسفی کے مطابق جنگ کے دوران قوانین خاموش ہو جاتے ہیں۔ اس بات پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے انہیں جواب دیا کہ اکیسویں صدی میں ایسا ممکن نہیں۔‘
اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل سے واضح کرنے کی کوشش کی کہ ’ان حراستی مراکز کا مقصد لوگوں کی اصلاح کرنا ہے، قتل کرنا ہرگز نہیں۔ یہ بنیادی طور پر اصلاحی مراکز ہیں جہاں لوگوں پر تشدد نہیں کیا جاتا۔‘
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے پوچھا ’کیا لوگوں کو اُن کی مرضی سے ان مراکز میں رکھا جاتا ہے؟ تو اٹارنی جنرل نے تصدیق کی کہ حراستی مراکز میں لوگوں کو زبردستی رکھا جاتا ہے۔‘
سپریم کورٹ نے کہا ’اس سے زیادہ نیک کام کیا ہو گا کہ ہم اس کیس کو روزانہ کی بنیاد پر سُنیں۔ 11 سال سے یہ معاملہ پردوں کے پیچھے چُھپا رہا ہے۔‘