حراستی مراکز غیرقانونی قرار دینے کا پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل

سپریم کورٹ نے وفاق اور صوبے کے زیر انتظام سابق قبائلی علاقوں (فاٹا اور پاٹا) کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے بعد وہاں حراستی مراکز فعال ہونے کو غیر آئینی قرار  دینے کے فیصلے کو معطل کرتے ہوئے 13 نومبر تک حکم امتناعی جاری کر دیا۔

آٹھ اپریل 2018 کی اس تصویر میں قبائلی افراد پشتون پروٹیکشن موومنٹ کے تحت پشاور میں ایک مظاہرے میں اپنے لاپتہ رشتے داروں کی تصاویر اٹھائے شریک ہیں۔ (اے ایف پی)

سپریم کورٹ آف پاکستان نے وفاق اور صوبے کے زیر انتظام سابق قبائلی علاقوں (فاٹا اور پاٹا) کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے بعد وہاں حراستی مراکز فعال ہونے کو غیر آئینی قرار  دینے کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کرتے ہوئے 13 نومبر تک حکم امتناعی جاری کر دیا جبکہ اس معاملے پر مزید سماعت کے لیے لارجر بینچ تشکیل دے دیا گیا ہے۔

پشاور ہائی کورٹ نے اپنے 17 اکتوبر کے فیصلے میں سابق قبائلی علاقوں (فاٹا اور پاٹا) کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے بعد وہاں حراستی مراکز فعال ہونے کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے صوبے کے انسپکٹر جنرل آف پولیس کو تین روز کے اندر ان حراستی مراکز کا انتظام سنبھالنے کی ہدایت کی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل بینچ نے ایڈووکیٹ شبیر حسین گگیانی کی پٹیشن پر فیصلہ سناتے ہوئے انسپکٹر جنرل پولیس کو یہ حکم بھی دیا تھا کہ زیر حراست ہر شخص کے کیس کی جانچ پڑتال کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے اور جن کے خلاف کوئی کیس نہیں انہیں رہا کر دیا جائے جبکہ جن کے خلاف کیس درج  ہیں انہیں متعلقہ عدالتوں میں بھجوا دیا جائے۔ 

اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر اپیل پر سماعت کے دوران چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریماکس دیے کہ ’امریکہ نے گوانتاناموبے جیل اپنے ملک کی حدود سے باہر بنائی مگر ہم اپنی ہی حدود میں لوگوں کو نظر بند کرنا چاہتے ہیں۔‘

دوران سماعت اٹارنی جنرل انور منصور خان نے موقف اختیار کیا کہ آرٹیکل 245 سیکشن تین کے تحت پشاور ہائی کورٹ کو یہ کیس سننے کا اختیار ہی نہیں تھا۔

سماعت کے بعد عدالت عظمیٰ نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کرتے ہوئے  13 نومبر تک حکم امتناعی جاری کر دیا۔

 دوسری جانب معاملے پر مزید سماعت کے لیے سپریم کورٹ کا لارجر بینچ بھی تشکیل دے دیا گیا۔

کیس کا پس منظر

قانون نافذ کرنے والے مختلف اداروں کے زیر انتظام ان حراستی مراکز میں موجود دو قیدیوں کی جانب سے ان کے وکیل ایڈووکیٹ شبیر حسین گگیانی نے کے پی ایکشن آرڈیننس 2019، کے پی (سابق فاٹا) میں جاری قوانین ایکٹ 2019 اور کے پی (سابق پاٹا) میں جاری قوانین ایکٹ 2018 کو پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

درخواست میں انہوں نے استدعا کی تھی کہ 2011 کے قواعد و ضوابط کے تحت قائم کر دہ تمام حراستی مراکز کو غیر آئینی قرار دیا جائے اور قانون کے مطابق مقدمہ چلانے کے لیے تمام قیدیوں کو متعلقہ عدالتوں کے حوالے کیا جائے۔

ان کا موقف تھا کہ آئین میں کی گئی 25ویں ترمیم کے بعد سے قبائلی اضلاع کے عوام کے ساتھ ملک اور صوبے کے دیگر عوام سے مختلف رویہ نہیں رکھا جاسکتا۔

20 جولائی 2011 کو صوبائی وزیر داخلہ نے ایک حکم نامہ جاری کیا تھا جس کے تحت ایسے نو مراکز جہاں ہزاروں کی تعداد میں مشتبہ عسکریت پسندوں کو قید کیا گیا تھا، صوبے کے  زیر انتظام حراستی مراکز قرار پائے تھے۔ 

اسی قسم کا ایک حکم نامہ 12 اگست 2011 کو ایڈیشنل چیف سیکریٹری فاٹا نے جاری کیا تھا جس کے تحت تقریباً 34 حراستی مراکز نوٹیفائی کیے گئے تھے۔

اس حکم نامے سے قبائلی علاقوں کے ساتوں اضلاع میں موجود فرنٹیئر کور اور پولیٹیکل ایجنٹوں کے زیر انتظام لاک اپس حراستی مراکز بن گئے تھے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان