ایک تحقیق کے مطابق برطانیہ میں جادو ٹونے کے عقائد کے سبب بچوں پر تشدد کی شرح میں دو سال کے دوران تین گنا اضافہ ہوا ہے۔
حکام نے 2018 اور 2019 میں ایسے دو ہزار بچوں کو شناخت کیا ہے جو اس رجحان سے متاثر ہوئے ہیں۔ لیکن ماہرین کے مطابق اس حوالے سے آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے یہ اعدادوشمار حقیقت میں کہیں زیادہ ہو سکتے ہیں۔
عقائد یا مذہبی بنیادوں پر بچوں کو جادو ٹونے میں استعمال کرنے کا الزام کئی ’جادوگرنیوں‘ کی پرتشدد واقعات میں موت کی وجہ بھی بن چکا ہے۔ اس عمل میں بچوں کو جسمانی طور پر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے جس میں انہیں مارنا، جلانا، کاٹنا اور باندھنا شامل ہے۔
2018 اور 2019 میں کونسل نے ایک ہزار 950 ایسے کیسز ریکارڈ کیے تھے جو کہ 2016 اور 2017 کے مقابلے میں 20 گنا زیادہ تھے۔
برطانیہ میں جادوٹونے میں بچوں کے استعمال اور تشدد کو روکنے کے نگران ادارے نیشنل ایف جی ایم سینٹر نے اس رجحان میں اضافے کو ’نا قابل قبول اور خطرناک‘ قرار دیا ہے۔
سینٹر کے سربراہ لیتھین بارتھولومیو نے اس حوالے سے کہا: ’یہ ایک مثبت بات ہے کہ ایسے کیسوں کے متاثرہ بچے وہ توجہ اور حفاظت حاصل کر رہے ہیں، جس کی انہیں ضرورت ہے لیکن اس بارے میں ہمیں مزید اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ ایسی نقصان دہ رسومات کا خاتمہ کیا جا سکے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ یہ واضح نہیں کہ ایسے واقعات میں بچوں کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے یا حکام ان واقعات کو پہلے کی نسبت بہتر انداز میں شناخت اور ریکارڈ کر رہے ہیں۔
لیتھین نے کہا: ’یہ ایک عالمی مسئلہ ہے، جو پورے ملک میں مختلف مذاہب کے لوگوں میں موجود ہے، حتیٰ کہ اُن لوگوں میں بھی جو کوئی مذہب نہیں رکھتے۔ اس لیے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔‘
اکثر اوقات بچوں کی الگ جسمانی ساخت، کمزوری، نفسیاتی مسائل، عجیب و غریب مہارت اور برے رویوں کے باعث کہا جاتا ہے کہ یہ جنوں، بری روحوں یا جادو ٹونے کے باعث ہے، جس کے بعد روحانی رہنما یا خاندان کے افراد ان معاملات سے نمٹنے کے لیے پرتشدد طریقے اپناتے ہیں۔
لیتھین کا کہنا ہے کہ ایسے کیسز کو اکثر خاندانوں میں بری قسمت سے جوڑا جاتا ہے اور معاشی مشکلات، طلاق یا بیماری وغیرہ کا الزام بچوں کو دیا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا: ’لوگ ان معاملات کی وضاحت کے لیے روحانی رہنماؤں کے پاس جاتے ہیں، جو بچوں کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کو کچھ روحانی رہنما اور تنظیمیں اس میں ملوث ہیں لیکن ان معاملات میں خاندان والے بھی ملوث ہو سکتے ہیں۔ وہ خود ہی مسئلہ تلاش کر کے اسے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ جادو ٹونے کے واقعات میں بچوں کی ہلاکتوں اور ان پر غم و غصے کے باوجود برطانیہ میں اس معاملے میں ’بہت کم تحقیق‘ کی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا:’وکٹوریا کلیمبی دو دہائیوں پہلے ہلاک ہوئی تھیں لیکن اس بارے میں آگاہی ابھی تک اس سطح کی نہیں ہے جیسی فیمیل جینائیٹل میوٹیلیشن (ایف جی ایم) یعنی اندام نہانی کے بیرونی حصے کو مکمل یا جزوی طور پر کاٹ کر الگ کیے جانے کے حوالے سے پائی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر بات نہیں کی جاتی اور لوگ سمجھتے ہیں اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو آپ بری روحوں کو دعوت دیتے ہیں۔‘
آٹھ سالہ وکٹوریا اپنی خالہ کے ہاتھوں تشدد کے باعث قتل ہوئی تھیں۔ ان کی خالہ کا کہنا تھا کہ وکٹوریا میں بری روحوں نے بسیرا کر لیا تھا۔
فروری 2000 میں وہ خوراک کی کمی اور سردی لگنے کے باعث ہلاک ہو گئی تھیں۔ انہیں کئی دن تک بھوکا رکھا گیا تھا جس کے دوران انہیں مارا اور جلایا گیا۔ ایسا جادو ٹونے کے عمل کے دوران کیا گیا تھا۔
آٹھ سالہ وکٹوریا فروری 2000 میں اپنی خالہ کے ہاتھوں تشدد کے باعث قتل ہوئی تھیں، جن کا کہنا تھا کہ کا کہنا تھا کہ وکٹوریا میں بری روحوں نے بسیرا کر لیا تھا۔ (تصویر: پی اے)
ایسی ہی اموات کے ایک اور واقعے میں دسمبر 2010 میں چار سالہ نُصیبہ بھاروچی کو بھی قتل کر دیا گیا تھا جب ان کی ماں نے ان میں بری روحوں کی موجودگی کا الزام لگا کر ان کی آنتیں نکال دی تھیں۔
ان کی ماں کو ذہنی صحت ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ نُصیبہ کے کفن کے پاس راکنگ چیئر پر بیٹھیں ایم پی تھری پلیئر پر قران کی آیات سن رہی تھیں۔
کچھ ہفتوں بعد 15 سالہ کرسٹی بامو کو چھوٹے بچوں پر جادو کرنے کے الزام میں اپنے ہی رشتہ داروں نے تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد پانی میں ڈبو کر قتل کر دیا تھا۔
ان کے بہن بھائیوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا لیکن جادوگر ہونے کے ’اعتراف‘ کے بعد انہیں چھوڑ دیا گیا تھا۔
2013 میں آٹھ سالہ عائشہ علی کو بھی ان کی والدہ نے تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کردیا تھا، جب انہوں نے الزام لگایا کہ ان کی بیٹی میں بری روحوں نے بسیرا کر لیا ہے اور ان کے اندر ’شیطان‘ اور ’برا خون‘ موجود ہے۔ ایسا ان کے والد کے گھر سے ناراض ہو کر جانے کے بعد ہوا۔
عقائد کی بنیاد پر بچوں پر تشدد کے حوالے سے کام کرنے والے ادارے نیشنل ورکنگ گروپ فار چائلڈ ابیوز کی سربراہ ڈاکٹر لزا اوکلے نے ماضی میں دی انڈپینڈنٹ کو بتایا تھا کہ استحصال کی یہ وجہ ’ایک سچے مذہبی عقیدے‘ سے شروع ہو سکتی ہے ’جہاں لوگوں کو یقین ہوتا ہے کہ وہ جو کر رہے ہیں وہ ان کے بچے کے لیے اچھا ہے۔‘
میٹروپولیٹن پولیس کے ایک سینئیر عہدیدار نے اس بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا کہ جادوٹونے اور شیطانوں کا ’ظاہری آنکھوں سے دکھائی نہ دینے‘ سے جڑے استحصال کو سمجھا نہیں جا سکا۔
ایسے واقعات برطانیہ کے تمام علاقوں میں ہوئے ہیں اور یہ تمام مذہبی برادریوں میں ہوتے ہیں لیکن 13 سو اساتذہ، سماجی کارکنوں، پولیس اہلکاروں، طبی عملے اور مذہبی رہنماؤں سے کیے گئے سروے کے مطابق ان میں سے صرف ایک تہائی ہی کسی ایسے پرتشدد عمل کی شناخت کر سکتے ہیں۔
لیتھین نے پیشہ ورانہ افراد پر زور دیا ہے کہ وہ اس حوالے سے اپنی معلومات میں اضافہ کریں تاکہ وہ اپنے عقائد سے متعلق ’اہم مواقع پر اہم سوال پوچھ سکیں۔‘
رواں سال کے اوائل میں فیمیل جینائیٹل میوٹیلیشن کے ایک کیس میں خاتون کو سزا سنائے جانے کے موقع پر بھی جادوٹونے کے عقائد سننے میں آئے۔
مذکورہ خاتون، جن کا نام قانونی وجوہات کی بنا پر نہیں بتایا جا سکتا، نے مقدمے کی تفتیش کے دوران پولیس اہلکاروں اور وکلا پر بھی جادو کرنے کی کوشش کی۔
محکمہ تعلیم کے اعدادوشمار کے مطابق 2018 اور 2019 میں ایف جی ایم کے خطرے کا سامنا کرنے والے بچوں کے کیسوں کی تعداد ایک ہزار تھی جو کہ گذشتہ سال کے مقابلے میں چھ فیصد زائد تھی۔
لوکل گورنمنٹ ایسوسی ایشن (ایل جی اے) نے زور دیا ہے کہ بچوں کے لیے خدمات انجام دینے والے اداروں کو مزید حکومتی فنڈز دیے جائیں تاکہ ’مدد کی اس بڑی طلب‘ کو پورا کیا جا سکے۔
انیتا لوور جو کہ ایف جی ایم کے موضوع پر ایل جی اے کی سربراہ ہیں، کا کہنا ہے: ’سماجی کارکن ایف جی ایم اور مذہبی عقائد کی بنیاد پر تشدد کی تشخیص کرنے میں بہت بہتر ہیں لیکن اصل واقعات ان اعدادوشمار سے زیادہ ہو سکتے ہیں کیونکہ یہ بہت کم رپورٹ کیے جاتے ہیں، تاہم کونسلز پُر عزم ہیں کہ ایف جی ایم اور ایسی روایات کو روکا جا سکے اور ہم اس سلسلے میں بچوں اور نوجوانوں کو محفوظ رکھنے کے لیے اپنی پارٹنت تنظیموں کے ساتھ ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔‘
© The Independent