صوبہ سندھ صدیوں سے مختلف مذاہب بشمول اسلام، ہندو مت، یہودیت، بدھ مت اورجین مت کے پیروکاروں کا اہم مرکز رہا ہے۔
تقسیمِ ہند سے پہلے صحرائے تھر میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے ساتھ جین دھرم کے ماننے والوں کی ایک بڑی تعداد رہتی تھی۔ مقامی لوگوں کے مطابق اُس وقت تھر کے نگرپارکر اور اس کے مضافاتی شہروں میں جین دھرم کے پیروکاروں کی اکثریت تھی، جو تقسیم کے وقت بھارت ہجرت کر گئے۔
کچھ بچے ہوئے جینی خاندان نگرپارکر میں رہے مگر 1971 کی پاکستان بھارت جنگ کے بعد وہ بھی بھارت کوچ کرگئے۔
مقامی لوگوں کے مطابق آخری جینی خاندان 1972 کی ایک صبح کو اونٹ پر بیٹھ کر ہندستان روانہ ہوگیا۔
ننگر پارکر کے کارونجھر پہاڑ میں واقع ہندو مت کے مقدس ساردھڑو مندر کے 70 سالہ پجاری چنی لال تھر کے ان چند لوگوں میں سے ہیں، جنہوں نے تھر میں تقسیم ہند سے پہلے جین دھرم کے لوگوں کو دیکھا۔
چنی لال نے پیدائش کے بعد اکثریت جین دھرم کے لوگوں کی دیکھی اور جین دھرم کے کئی بچے ان کے ہم جماعت بھی رہے۔
ان کے مطابق ویراہ واہ، بھوڈیسر، ننگرپارکر، شولو، ڈانو دھاندل اور دیگر علاقوں میں بڑی تعداد میں جین دھرم کے پیروکار رہتے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا 1972 میں بھارت ہجرت کرنے والا آخری جینی خاندان کا سربراہ ان کا ہم جماعت تھا۔
ان کے مطابق جینی لوگ مذہبی طور پر بڑے نرم دل تھے۔ وہ لوگ ننگے پاؤں چلتے تھے کہ کہیں کوئی کیڑا چپل کے نیچے آ کر مر نہ جائے اور منہ پرڈھاٹا باندھتے تھے کہ کوئی پتنگا ان کے منہ میں جا کر مر نہ جائے۔
’وہ سر شام کھانا پکا لیتے تھے اور رات کو بتی بھی نہیں جلاتے تھے تاکہ کسی رینگنے یا اڑنے والے کیڑے مکوڑے کو نقصان نہ پہنچے۔‘
چنی لال نے کہا جینوں نے گئوشالہ کے ساتھ کئی مندر بھی بنائے جن میں سے اب چار ہی رہ گئے ہیں۔ ان میں نگرپارکر کے بازار میں موجود جین مت کا مندر شامل ہے جو 500 سال پرانا سمجھا جاتا ہے اورگوڑی کے مقام پر بھی ایک مندر واقع ہے جسے گوڑی مندر کہا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ سابقہ پاری نگر اور موجودہ ویرا واہ شہر میں ایک چھوٹا مندر اور بھوڈیسر کے مقام پر ایک قدیم مندر، جسے پونی مندر کہا جاتا ہے، اب بھی خستہ حال میں موجود ہیں۔
پتھروں سے بنے ان مندروں پر جانوروں اور پرندوں کی مورتیاں بنی ہیں۔ پتھر کی بنی نگم مورتیاں بھی دیواروں میں لگی نظر آتی ہیں۔
بھوڈیسر کے مقام پر جین مت کا پونی مندر ایک بڑے چبوترے پر بنا ہوا ہے۔ پتھروں سے بنے اس قدیم مندر کی دیواروں میں جڑے پتھر اکھڑ گئے ہیں، جنہیں گرنے سے بچانے کے لیے لوہے کی تاروں سے باندھ دیا گیا ہے۔
مقامی لوگوں کے مطابق 2001 میں بھارتی شہر بھُج میں آنے والے زلزلے نے ان چند بچے ہوئے مندروں کو کافی نقصان پہنچایا۔
نگرپارکر اور پونی مندروں کی مرمت کا کام 2017 میں شروع ہوا مگر ابھی تک مکمل نہیں ہوسکا۔