’میں نے پیٹ کاٹ کر پیسے اکٹھے کیے، کچھ یار دوستوں سے ادھار لیے، بیوی بچوں سے بہت سے وعدے کیے، بوڑھے ماں باپ کو دلاسے دیے، اور نیا سلوایا سفید کاٹن کا جوڑا پہن کر بہت سی آرزؤوں اور امیدوں کے ساتھ سعودی کے سفر پر روانہ ہوا۔‘
یہ ماجرا سنا رہے ہیں ضلع صوابی کے دور افتادہ اور پسماندہ گاؤں گدون سے تعلق رکھنے والا گلزار خان، جو بیتے برسوں کے ان دنوں کو یاد کرکے بتاتے ہیں:
’میں تمام راستے ان خیالوں میں گم تھا کہ اب ہماری غربت کے دن کم رہ گئے ہیں، اب میں بھی اپنے بچوں کی تمام خواہشات پوری کر سکوں گا۔ انہیں تعلیم دلاؤں گا۔‘
گلزار سے اس کے کفیل نے آٹھ سو ریال مہینے کی تنخوا دینے کا وعدہ کیا تھا۔جو تقریباً 25ہزار پاکستانی روپے بنتے تھے۔ لیکن کس ماحول میں، کتنے گھنٹے کام کرنا پڑےگا، یہ نہیں بتایا گیا تھا۔ گلزار کو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ اس کو کھانا کب اور کس طرح کا ملے گا۔
’ہمیں کئی دنوں کا روکھا سوکھا کھانا ملتا تھا۔ ہم روز صحرا میں کا م کرنے جاتے تھے۔ سخت مشقت کرنی پڑتی تھی۔ اس کام کے عوض دی جانے والی تنخواہ کم تھی۔ہمارا کفیل سخت مزاج انسان تھا۔ مارتا بھی تھا، اس لیے میں وہاں سے بھاگ کر ایک ٹائلوں کا کام کرنے والی جگہ پر پہنچا۔ وہاں سے میں 1700 ریال ماہانہ کمانے لگا۔ لیکن میرے پچھلے کفیل نے میرے خلاف رپورٹ درج کر دی تھی۔محمد بن سلمان کے دور میں حکم ہوا کہ تمام غیر قانونی کام کرنے والوں کو پکڑ کر واپس پاکستان بھیج دیا جائے۔‘
گلزار خان بھی 15 ماہ سعودی میں گزارنے کے بعد خالی ہاتھ اور ننگے پاؤں واپس پاکستان پہنچ گئے۔
صوابی ہی سے تعلق رکھنے والے ارشد خان اور عمران محمد کو بھی تقریباً دو سال پہلے زبردستی واپس پاکستان بھیج دیا گیا کیونکہ ان کےبقول انہیں بھی کم اجرت پر سخت کام کرنے پڑ رہے تھے۔ گھر خرچ بھیجنے کے لیے انہیں غیر قانونی طور پر دوسری جگہوں پر بھی کام کرنا پڑتا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ ان کو مار پیٹ نہیں پڑی البتہ اور لوگوں سے قصے سنتے تھے۔
پاکستان سے سعودی عرب جانے والے لوگوں میں زیادہ تعداد خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والوں کی ہے، جس کی وجہ وہاں رزگار کے وسائل کا فقدان ہے۔ لیکن ضلع صوابی سے بھی ایک بڑی تعداد گلف ممالک خاص طور پر سعودی عرب اور دبئی میں کام کی غرض سے مقیم ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ماضی میں یہاں کے لوگوں میں گھر سے دور جانے اور سخت کام کرنے کا جذبہ زیادہ تھا۔ اس زمانے میں سمگلنگ کے حوالے سے سعودی قانون میں اتنی سختی نہیں تھی۔ لہٰذا اکثر لوگوں نے اس طرح سے بھی بہت پیسہ کمایا۔
اگرچہ حالات بدل گئے ہیں، قانون میں مزید سختی آگئی ہے، لیکن اب بھی پاکستان اور خیبر پختونخوا سے ایک بڑی تعداد کام کرنے کی غرض سے سعودی عرب جاتی ہے۔
پشاور پروٹیکٹر امیگریشن دفتر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ صرف 2018 میں چار لاکھ 70 ہزار لوگ پورے پاکستان سے اور تقریباً پونے دو لاکھ افراد خیبر پختونخوا سے سعودی عرب کام کے ویزا پر گئے۔
ایک مشہور ریکروٹنگ ایجنسی کے مینیجنگ ڈائریکٹر ناصر خان نے بتایا کہ 2015 میں ساڑھے نو لاکھ کے قریب لوگ پاکستان سے سعودی گئے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’قانون میں سختی آجانے کے بعد ورکروں پر ٹیکس لاگو ہو جانے سے یہ تعداد کم ہو گئی ہے۔ امید ہے اب حالات بہتر ہو جائیں گے۔‘
سعودی عرب میں اس وقت 16 لاکھ پاکستانی مقیم ہیں۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پچھلے 18 ماہ میں ایک لاکھ 31 ہزار چھ سو پاکستانیوں کو جلاوطن کیا جا چکا ہے۔
سعودی عرب میں تمام سرکاری کارروائی اور خطوط صرف عربی میں لکھے جاتے ہیں۔ معمولی خطاؤں پر لوگ سالوں جیلوں میں گزار رہے ہیں، کیونکہ اکثر کو وہاں کی زبان اور قانون کی سمجھ نہیں آتی۔
یہ معاملہ 2018 میں خیبر پختونخوا کے وزیرِ لوکل گورنمنٹ عنایت اللہ خان نے اسمبلی میں اٹھایا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ تین ہزار کے قریب پاکستانی اس وقت سعودی عرب کی جیلوں میں بند ہیں۔
ویانا کنونشن کے مطابق جب بھی کسی پاکستانی کو کسی کوتاہی یا جرم میں پکڑا جائے تو یہ اس ملک کے حکام کا فرض بنتا ہے کہ پاکستان کے قونصل خانے کو مطلع کریں تاکہ وہ اس معاملےکی تحقیقات کریں۔
لیکن دونوں ممالک کی جانب سے ایسا کچھ دیکھنے میں نہیں آ رہا۔ 2014 سے 2018 تک تقریباً 66 پاکستانیوں کا سر قلم کیا جا چکا ہے اور باقی مختلف جرائم اور خطاؤں میں قید کاٹ رہے ہیں، جن کو چھری کی نوک پر لایا گیا ان میں بہت بڑی تعداد ان پڑھ لوگوں کی تھی، جن میں سے بہت سے لاعلمی یا جہالت کی وجہ سے سنگین جرائم کے مرتکب بن جاتے ہیں۔
اپریل 2016 میں سعودی عرب نے ’وژن 2030‘ پیش کیا تھا جس میں غیر ملکیوں کے لیے بہتر اور آسان نظام اپنانے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ لیکن تاحال ایسا کچھ دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔
اب جب کہ سعودی شہزادہ محمد بن سلمان 16 تاریخ کو پاکستان تشریف لا رہے ہیں اور دو طرفہ تعلقات کی بہتری کی باتیں ہو رہی ہیں۔ سعودی پاکستان میں کھربوں روپے کی سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ ظاہر کر چکا ہے، سوال یہ ہے کہ کیا ان پاکستانیوں کے حقوق پر بھی بات ہو جو یا تو کفیل کے رحم وکرم پر زندگی گزار رہے ہیں، یا پھر نہ جانے کب سے جیل کی تاریکیوں میں پڑے مدد کے حصول کی راہ تک رہے ہیں۔