صوبہ سندھ کے ضلع سانگھڑ میں واقع مشہور صوفی گائیک مانجھی فقیر کے گاؤں پر نامعلوم افراد نے دھاوا بول دیا اور گاؤں کے باہر ان کے والد کی درگاہ اور ان کے آستانے کے نام کے بورڈ کو اکھاڑ دیا جبکہ حملے میں وہ خود محفوظ رہے۔
ان کے بھتیجے پر الزام ہے کہ انہوں نے سوشل میڈیا پر توہینِ رسالت کی ہے۔
سانگھڑ کی تحصیل شہداد پور سے 21 کلومیٹر دور برہون شہر سے متصل گاؤں محمد علی دودانی میں ہونے والے اس حملے کی خبر کے رپورٹ ہونے تک کوئی ایف آئی آر نہیں کاٹی گئی۔
مانجھی فقیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو ٹیلی فون پر بتایا کہ ’اخلاق شاہ، غفور سنجرانی، امام دین، انور چن، اختیار شاہ، عطا اللہ شاہ، امیر سنجرانی اور دیگر لوگوں نے گاؤں پر حملہ کر کے وہاں لگے بورڈ کو اکھاڑ کر گٹر میں پھینک دیا۔ اس بورڈ پر میرے آستانے کا نام اور میرے والد دُر محمد فقیر کی درگاہ کا نام لکھا ہوا تھا۔ انھوں نے محمد نام کی لاج بھی نہیں رکھی۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ چند دن پہلے پڑوس کے گاؤں کے رہائشی چند لوگوں نے ان کے بھائی اکبر بودانی کے بیٹے ارشاد بودانی پر الزام عائد کیا کہ انھوں نے اپنی ایک فیس بک پوسٹ میں ’توہین رسالت‘ کی ہے حالانکہ میرے بھتیجے نے قران شریف کی ایک آیت شیئر کی تھی۔ یہ صرف ایک پوسٹ کی بات نہیں ہے بلکہ میرے صوفی کلام کے باعث انتہا پسند کافی عرصے سے میرے پیچھے پڑے ہیں۔ ایک بار تو میرے آستانے پر فائرنگ بھی ہو چکی ہے۔‘
’میں اپنے کلام میں مذہبی انتہا پسندی کی مذمت کرتا ہوں جو انتہا پسندوں کو پسند نہیں۔ میرے دادا نے شاہ عبدالطیف بھٹائی کو اپنا مرشد بنایا تھا اور میں بھی بھٹائی کا پیروکار ہوں اور ایسے حملوں سے نہیں ڈرتا اور اپنا کلام جاری رکھوں گا۔‘
مانجھی فقیر نے مزید کہا کہ ماضی میں بھی چند شرپسند بھٹائی کی درگاہ کے موجودہ گدی نشین سید وقار حسین شاہ کے والد سید نثار حسین شاہ سے ان کے آفیشل لیٹر اور ٹھپے کے ساتھ ایک فتویٰ لے آئے تھے اور اس کی 500 کاپیاں بنا کر کر بانٹی تھیں کہ ’میں اسلام کے خلاف کام کر رہا ہوں۔ کئی بار مجھے مارنے کی بھی کوشش کئی گئی، مگر میں کہیں نہیں جاؤں گا اور سندھ میں ہی جینا اور مرنا چاہتا ہوں۔ میں حکام کو اپیل کرتا ہوں کہ مجھے تحفظ دیا جائے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’میں کون ہوں میں کون ہوں مجھے جانتا کوئی نہیں‘ اور ’کوئی رحمان کی جانب کوئی بھگوان کی جانب، میرا سجدہ اسی کو ہے جو ہے انسان کی جانب‘ جیسے سینکڑوں صوفی نغمے گا کر شہرت پانے والے 55 سالہ مانجھی فقیر سندھ کے روایتی صوفی ازم کے پاسدار سمجھے جاتے ہیں۔ بقول ان کے وہ 15 سال کی عمر سے صوفی کلام گا رہے ہیں۔
مانجھی فقیر نہ صرف اپنے آستانے پر صوفی محفلیں سجاتے ہیں بلکہ پورے سندھ میں موجود صوفی درگاہوں پر بھی صوفیانہ کلام گاتے ہیں۔
اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا صارفین نے ان کے گاؤں پر حملے کے مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ صوفی گائک کو تحفظ دیا جائے۔
اسلام آباد کے صحافی ابراہیم کنبہر نے اپنی فیس بک پوسٹ میں لکھا کہ پورے سندھ کو صوفی گائک مانجھی فقیر کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ ’اگر انتہاپسندوں کو نہ روکا گیا تو ایک دن صوفیوں کی دھرتی سندھ بھی انتہا پسندی کا لبادہ اوڑھ لے گی۔ پھر نہ صرف ماجھی فقیر بلکہ میں اور آپ سمیت کوئی بھی انتہا پسندوں سے محفوظ نہیں رہے گا۔‘
سندھی میگزین روزنامہ افیئر کے ایڈیٹر علی رند نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں لکھا کہ ’دھوکے بازی سے لوگوں کو اکسا کر صوفی آستانوں پر حملہ کرنا، سندھ پر حملے کے مترادف ہے۔‘
انسانی حقوق کمیشن کے علاقائی رابطہ کار امداد چانڈیو نے اپنے فیس بک پوسٹ میں مطالبہ کیا کہ مانجھی فقیر کے آستانے پر حملہ کرنے والے رجعت پسندوں کو گرفتار کیا جائے۔ انھوں نے ایک ویڈیو بھی شیئر کی جس میں رات کے وقت دو درجن کے قریب لوگ موبائل فون کی روشنی میں ’نعرہ تکبیر‘ لگاتے ہوئے مانجھی فقیر کے نام کا بورڈ گرا رہے ہیں۔
اس سلسلے میں ایس ایس پی سانگھڑ ذیشان صدیقی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کچھ مشتعل افراد تھانے پر آئے تھے کہ ارشاد بودانی نے ’توہین رسالت‘ کی ہے انھیں گرفتار کیا جائے تو ’ہم نے انھیں کہا کہ اس معاملے کی تحقیق کروائیں گے اور ہم انے ایف آئی اے کو لکھا ہے یہ جاننے کے لیے کہ کیا ارشاد نے ایسا لکھا ہے یا کسی اور نے ان کے نام کی فیس بک آئی ڈی بنائی ہے۔‘
ذیشان صدیقی کے مطابق بعد میں مشتعل افراد نے روڈ بلاک کیا اور کچھ لوگوں نے ان کے آستانے کا بورڈ اکھاڑ دیا۔ 'ہم مانجھی فقیر کو ہر قسم کا تحفظ دیں گے اور اس معاملے کو حل کرانے کی بھی کوشش کر رہے ہیں۔‘