خیبرپختونخوا میں باجوڑ کے صدر مقام خار میں واقع گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ میں ایک کلاس میں کئی سو طلبہ کی موجودگی کی وجہ سے ایک چھوٹے سے جلسے کا سا گمان ہوتا ہے، جہاں نہ صرف اساتذہ کو لیکچر دینے میں مشکلات پیش آتی ہیں، وہیں طلبہ کو بھی پڑھائی میں دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کالج میں بی ایس سیمسٹر سسٹم کے کوآرڈینیٹر اسسٹنٹ پروفیسر صارم جان کے مطابق لیکچرر کے دوران ان کی کلاس میں طلبہ کی تعداد تین سو سے زائد ہوتی ہے، جس کی وجہ سے وہ حاضری نہیں لے سکتے اور نہ ہی بہتر طریقے سے لیکچر دے سکتے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’رش کی وجہ سے تعلیم دینے اور سیکھنے کا عمل دونوں متاثر ہوتے ہیں۔ اتنے رش میں معیاری لیکچر دینا ممکن ہی نہیں۔ یہاں کوئی ساؤنڈ سسٹم بھی نہیں ہے۔ ہم کلاسوں میں لیکچر کے دوران چیختے ہیں جس کی وجہ سے ہمیں اکثر انفیکشن ہوتا ہے اور گلا خراب ہو جاتا ہے۔ ساتھ ہی خوف بھی محسوس کرتے ہیں کہ تعلیم دینے کے لیے جو دوستانہ ماحول درکار ہوتا ہے وہ ہمیں میسر نہیں، لڑکے سوچتے ہوں گے کہ ہم انہیں جو تیاری کروا رہے ہیں، وہ ٹھیک بھی ہے یا نہیں۔‘
کالج کے پرنسپل پروفیسر گل حیدر نے بتایا کہ ’اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہماری کلاسوں میں رش ہوتا ہے۔ تقریباً ہر کلاس میں ہی طلبہ کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے۔ انٹرمیڈیٹ کی سطح پر ہمارے پاس 1533 اور بی ایس پروگرام سمسٹر سسٹم میں 687 طلبہ ہیں، جبکہ حکومت کی جانب سے انٹر لیول کا مختص کوٹہ 350 ہے۔ اس سال ہم نے فرسٹ ایئر میں 810 طلبہ کو داخلہ دیا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید بتایا: ’باجوڑ میں تعلیم کے مواقع اور سہولیات بہت کم ہیں۔ ہم نے اپنے اوپر بوجھ ڈال کر زیادہ طلبہ کو داخلہ دے رکھا ہے اور انٹر لیول پر فرسٹ ایئر اور سیکنڈ ایئر کی کلاسیں ڈبل شفٹ میں چلا رہے ہیں۔ ہمارے پاس اساتذہ اور کلاس رومز کی کمی ہے۔‘
پروفیسر گل حیدر کے مطابق: ’اگرچہ کلاس رومز انٹرنیشنل معیار کے مطابق بنائے گئے ہیں جس میں کم از کم 50 یا زیادہ سے زیادہ 60 طلبہ کی گنجائش ہے لیکن کلاسوں میں طلبہ کی تعداد اس سے بھی بہت زیادہ ہوتی ہے۔آدھے طلبہ بیٹھ کر اور آدھے کھڑے ہو کر لیکچر سنتے ہیں، کیوں کہ کلاسوں میں فرنیچر کی بھی کمی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں انہوں نے ڈائریکٹر ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو زبانی اور تحریری طور پر آگاہ کر رکھا ہے۔ ’یہ بات ظاہر ہے کہ ہمارا انضمام خیبرپختونخوا کے ساتھ ہوا ہے، اس سے قبل ہم وفاق کا حصہ تھے۔ سابقہ فاٹا سیکرٹریٹ کی جانب سے ہمارے کالجوں کو اتنی اہمیت اور توجہ نہیں دی جاتی تھی گویا کہ ہم مین سٹریم سے کٹے ہوئے تھے۔ ڈائریکٹر ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے مجھ سے وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ بذات خود گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج خار کا دورہ کریں گے اور جو ضروریات اور مشکلات ہیں وہ ان کا مشاہدہ کرکے ٹھوس اقدامات اٹھائیں گے۔‘
تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے بعض طلبہ کھڑے ہوکر لیکچر سن رہے ہیں۔ (تصویر: میاں ارشد علی)
کالج میں بارہویں جماعت کے طالب علم ضیاالدین خان کا کہنا ہےکہ وہ بہت دور دراز کے علاقے سے پڑھنے کے لیے آتے ہیں لیکن کلاسوں میں رش کی وجہ سے انہیں جگہ نہیں ملتی اور وہ اکثر دروازے میں کھڑے ہوکر یا کھڑکیوں میں بیٹھ کر لیکچرر سنتے ہیں۔ تاہم رش کی وجہ سے نہ وہ درست طریقے سے ٹیچر کی بات سن پاتے ہیں اور نہ ہی سوالات کر سکتے ہیں۔
انہوں نے بتایا: ’ہم پچھلے دو سالوں سے ٹوئٹر پر اس سلسلے میں مہم چلا رہے ہیں لیکن ابھی تک کوئی معقول انتظام نہیں کیا گیا اور نہ ہی کسی نے نوٹس لیا ہے۔ کالج میں زیرِ تعلیم طلبہ کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ہم ہائر ایجوکیشن کمیشن کی خاموشی کو مجرمانہ قرار دیتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ درس و تدریس کا عمل جاری رکھنے کے لیے کالج میں فوری طور پر فرنیچر، اساتذہ اور نئی کلاسوں کا انتظام کیا جائے۔‘
دی تھنکرز ایسوسی ایشن، باجوڑ کے سربراہ شاہد علی کا کہنا ہےکہ کالج انتظامیہ کو طلبہ کے لیے کلاسوں میں ساؤنڈ سسٹم کا بندوبست کرنا چاہیے۔’کلاسوں میں طلبہ کی تعداد ذیادہ ہونے کی وجہ سے لیکچر دینے اور سمجھنے میں مشکلات پیش آتی ہیں، جس کی وجہ سے طلبہ کی کارکردگی متاثر ہو رہی ہے اور طلبہ کی شکایتیں بھی سامنے آرہی ہیں۔ساتھ ہی اساتذہ کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ اس مسئلے کو عارضی اور ہنگامی بنیادوں پر حل کرنے کے لیے کالج انتظامیہ کلاسوں میں ساؤنڈ سسٹم نصب کرے تاکہ طلبہ لیکچرز آسانی سے سن اور سمجھ سکیں۔‘
انہوں نے مطالبہ کیا کہ ’ہائی سکولوں کو ہائیر سیکنڈری کا درجہ دے کر انٹر کلاسز کالجوں سے یہاں شفٹ کی جائیں تاکہ کالجوں سے بوجھ کم ہو۔ باجوڑ میں برنگ کالج پر کام تیز کیا جائے۔ جب کہ سلارزئی سمیت چارمنگ اور ارنگ میں نئے کالجز قائم کیے جائیں۔ خار کالج میں ڈیپارٹمنٹس کی تعداد بھی بڑھائی جائے اور اس کے ساتھ ساتھ مزید اساتذہ بھی تعینات کیے جائیں۔‘