تاریخ میں جہاں بھی تبدیلی کی تحریکیں چلی ہیں اس میں متوسط طبقے نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ متوسط طبقہ تعلیم یافتہ بھی ہوتا ہے اور اسے دوسروں کے دکھ سمجھ بھی آتے ہیں۔ اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ معاشرے میں برداشت اور باہمی تعلقات میں بہتری آئے۔ یہ طبقہ غربت کی منزلیں طے کرتے ہوئے اوپر اٹھتا ہے اس لیے ان کے دل میں جذبہ رحم دلی اور مظلوم لوگوں کی فلاح کی شدید خواہش ہوتی۔ یہی وہ توانائی ہے جو اسے ظالموں کے خلاف تحریک چلانے پر مجبور کرتی ہے۔
سوڈان، الجیریا، لبنان، چلی اور بولیویا ان تمام ممالک میں متوسط طبقے نے استحصالی ریاست کے خلاف تحریک چلائی اور کافی حد تک اس میں کامیابی حاصل کی مگر ان سب کی منزل ابھی دور ہے۔ پاکستان کا متوسط طبقہ بھی متحرک ہے لیکن جب ہم اپنی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو سبق ہمیں یہ ملتا ہے کہ ہم پچھلے 70 سال سے غلط سیاسی فیصلے کر رہے ہیں۔
سب سے پہلی سیاسی غلطی اس پڑھے لکھے متوسط طبقے نے یہ کی کہ آزادی کے بعد آئین لکھنے میں نو سال لگا دیے۔ یہ تاخیر ریاست کے لیے کمزوری کا باعث بنی اور عوامی نمائندوں کی بجائے استحصالی طبقے نے اس پر قبضہ کر لیا جو اب تک جاری ہے۔
دوسری سیاسی غلطی متوسط طبقے نے یہ کی کے سیاسی جماعتیں بنانے کی بجائے فوج کے ادارے کی حمایت کا فیصلہ کیا۔ ہر مارشل لا غریب اور متوسط طبقے کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ مگر فوج حکومت میں آنے کے بعد ہمیشہ استحصالی طبقات کے ساتھ ہاتھ ملا لیتی ہے تاکہ عوام کو محکوم رکھے۔
تیسری سیاسی غلطی متوسط طبقے نے یہ کی کہ ہمیشہ کسی ایک شخص کو اپنا مسیحا سمجھا اور اداروں کی تعمیر میں دلچسپی نہیں لی۔ 80 کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو کو مسیحا سمجھا اور طاقت کے ایوانوں تک پہنچایا۔ لیکن اس کے بعد دونوں کا تعلق ٹوٹ گیا اور خواب ادھورے رہ گئے۔
اب عمران خان سے امید لگائیں لیکن پچھلے 15 ماہ سے صرف دکھ کے علاوہ کچھ نہیں ملا۔ غلطی مسیحاؤں کی نہیں بلکہ متوسط طبقے کی ہے۔ تمام فیصلوں کا اختیار مسیحا کو دینے کی بجائے انہیں چاہیے تھا کہ اس بات پر زور دیا جاتا کہ اہم فیصلوں کا کوئی طریقہ کار ہونا چاہیے اور پارٹی آئین سے کسی کو استثنیٰ نہیں ہونا چاہیے چاہے وہ پارٹی کا چیئرمین ہی کیوں نہ ہو۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چوتھی غلطی متوسط طبقے سے یہ ہوئی کہ انہوں نے تعلیمی اداروں اور چھوٹے کاروباری اداروں کو مضبوط نہیں کیا اور انہیں کامیاب بنایا۔ تعلیم ہی وہ ہتھیار ہے جو استحصالی قوتوں کو شکست دے سکتا ہے۔ تقریباً تمام پرائمری، سیکنڈری اور اعلیٰ تعلیم کے ادارے متوسط طبقہ چلا رہا ہے چاہے وہ نجی ہوں یا سرکاری۔ انہیں چاہیے تھا کہ اپنے بچوں کو اس اہم ہتھیار سے لیس کرتے تاکہ وہ ریاست اور حکومت کو سماجی مفاد کا مرکز بناتے۔ فوج اور دوسرے ریاستی ادارے بھی متوسط طبقے کے قبضے میں ہیں لیکن وہ عوام کی بجائے استحصالی طبقات کے مفاد میں کام کرتے ہیں اور یہ بھی متوسط طبقے کی ہی غلطی شمار ہوگی۔
یہ تمام تمہید باندھنے کا مقصد یہ تھا کہ اب متوسط طبقے کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کیا وہ اپنی ماضی کی غلطیاں مستقبل میں بھی دہرائے گا یا ان سے سبق سیکھ کر ایک بہتر مستقبل کی کوشش کرے گا۔ اس عمل میں پہلا قدم یہ ہوگا کہ اس بات پر غور کیا جائے کہ کیا موجودہ جمہوریہ عوام کے لیے ہے یا صرف چند چنیدہ لوگوں کے مفاد میں ہے۔ موجودہ جمہوریہ مکمل ناکام ہے اور اس کی اصلاح نہیں ہو سکتی۔ امید ہے متوسط طبقہ نئی جمہوریہ کی رہنمائی کی ذمہ داری اٹھائے گا تاکہ ایک حقیقی اسلامی فلاحی ریاست کی بنیاد ڈالی جاسکے۔