گئے وقتوں میں جب کوئی سرکاری ملازم ریٹائر ہونے لگتا تھا تو جانے سے پہلے اس کی کوشش ہوتی تھی کہ ساتھی ملازمین سے تعلقات ممکنہ حد تک مثبت رکھے جائیں، دفتر وقت پہ آئے، سب سے خوش اخلاقی سے پیش آئے تاکہ سنہری یادیں اپنے ساتھ لے جائے اور ایسی ہی یادیں چھوڑ جائے۔
آرمی چیف کا عہدہ بھی ایک سرکاری افسر کا ہے لیکن نہ جانے کیوں فوجی سربراہ کی ریٹائرمنٹ کے ساتھ ہمیشہ سے بدمزگی جڑی ہے۔ ہم نے پچھلے آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ سے قبل ’جانے کی باتیں جانے دو‘ والی مضحکہ خیز مہم چلتے دیکھی مگر انہوں نے اپنے مقررہ وقت پر رخصت ہو کر سب کو شکریہ راحیل شریف کہنے کا موقع دیا۔ تاہم اس بار یہ معاملہ مضحکہ خیزی کے اگلے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ رہا ہے۔
سارا دن سپریم کورٹ میں گزرا اور ایک خیال مسلسل ستاتا رہا کہ اس وقت ہماری فوج کو ہمارا مان ہونا چاہیے تھا، لیکن یہ کیا کہ لوگ آرمی چیف کی توسیع کے خلاف کیس پر بانچھیں نکالے، پھولے نہیں سما رہے۔
سپریم کورٹ کے لان، بار رومز، راہداریوں، کار پارکنگ میں موجود وکلا، میڈیا کے کارکنوں اور لا افسران سب کے چہروں پہ مسکان اور ایک ہی سوال تھا کہ آیا آرمی چیف گھر خود جائیں گے یا بھیجے جائیں گے۔
میری ذاتی رائے پوچھیں تو پاکستان مقدم ہے، پاکستان کے ادارے بھی ہمیں عزیز ہیں اور ہمارے لیے لائق صد احترام ہیں، لیکن گذشتہ دو دنوں میں آرمی چیف کے عہدے کو لے کر جو کچھ سوشل میڈیا پر پڑھ لیا، جو کچھ سپریم کورٹ میں دیکھ لیا اور جو کچھ اپنے احباب سے سن لیا وہ یہ کہنے کے لیے کافی ہے کہ اس وقت عہدے کے ساتھ عزت بچانا بھی ضروری ہے۔ یاد رہے کہ یہ عزت کسی فرد واحد کی نہیں بلکہ ادارے کی ہے۔
جب ملک کے سب سے منظم ادارے، ہماری طاقت ور فوج کے سربراہ کا عہدہ اور اس کی مدت ملازمت میں توسیع ’ٹاک آف ٹاؤن‘ ہو تو پھر زبانوں کی کاٹ کو کون روک سکتا ہے۔
ہم نے آرمی چیف پر لوگوں کو جملے کستے بھی سن لیا اور ایکسٹینشن یا پینشن پر ہنسی ٹھٹھول کرتے بھی دیکھا۔ ہم نے پاکستان آرمی ایکٹ پر اٹارنی جنرل آف پاکستان انور منصور کے بودے دلائل بھی سنے اور ججز کے چبھتے سوال بھی۔ ہر بار ایک ہی خیال آیا کہ عہدہ تو شاید بچ جائے لیکن ادارے کی اخلاقی سبقت قائم نہ رہے۔
خود سوچیں آرمی چیف کا عہدہ ہے، جس کی مدت میں توسیع کا معاملہ درپیش ہے۔ حکومتی وکیل کبھی آرمی ایکٹ تو کبھی آئینِ پاکستان کے درمیان دلائل کا پنگ پانگ کھیلتے ہوئے جب یہ کہہ دیں کہ آئینِ پاکستان میں اس پر کوئی پابندی نہیں کہ کسی بھی سابق جرنیل کو آرمی چیف لگایا جاسکے، تو انسان لحظہ بھر کو یہ سوچنے پہ مجبور ہو جاتا ہے کہ بھائی پھر یہ ریٹائرمنٹ کا تکلف کیوں؟ پھر یہ جگ ہنسائی کس لیے؟
اچھا چلیں مان لیتے ہیں کہ اٹارنی جنرل صاحب کو تیاری کا ٹھیک سے موقع نہ ملا ہو لیکن حکومتی دستاویزات میں آرمی چیف کے عہدے کو لے کر جس غیرسنجیدگی سے کام کیا نہیں ٹالا گیا وہ کس گنتی میں رکھا جائے۔ ہمیں تو ہمارے گھر کی بڑی بوڑھیاں ٹوکتی ہیں کہ جلدی کا کام شیطان کا، حکومت کو ٹوکنے والی کوئی بڑی بوڑھی بھی نہ ملی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خان صاحب کی ٹیم اتنی سادہ بلکہ اللہ لوگ نکلے گی اس کا اندازہ پہلے کسی کو نہ تھا۔ دل تھام کے سنیں ’عہدہ آرمی چیف کا، سمری اپائنمنٹ کی، ایڈوائس ری اپائنمنٹ کی اور نوٹی فیکیشن توسیع کا۔‘
یقین جانیں ایسی شاندار کارکردگی نے اچھے خاصے سنجیدہ سوچ کے لوگوں کو بھی ٹرولنگ پہ مجبور کر دیا، یہاں تک کہ آج چیف جسٹس بھی بےاختیار کہہ اٹھے کہ ایسے تو اسسٹنٹ کمشنر کی تعیناتی بھی نہیں کی جاتی۔
سپریم کورٹ نے مختلف حکومتوں کا سورج چڑھتے اترتے دیکھا ہے، مگر جو چاند تحریک انصاف کی حکومت نے چڑھائے وہ نظارہ تو کچھ اور ہی ہے۔
اٹارنی جنرل کے بقول آرمی ایکٹ اور آرمی رولز کا مینوئل خود انہیں بھی صبح ہی پڑھنے کو ملا، وہ جو آرمی چیف کے وکیل بنائے گئے ہیں یعنی فروغ نسیم، ان کا وکالت لائسنس معطل ہے۔
حکومت نے آرمی ایکٹ کی جس شق میں ترمیم کی وہ آرمی چیف سے متعلق ہی نہیں۔ وللہ حکومتی ٹیم کی اتنی سادگی؟ ایسا بچپنا؟ وہی بات ہوئی جو جلیبی کی طرح سیدھی ہے یعنی یہ کہانی آپ نہیں الجھی، الجھائی گئی ہے۔
عدالتی فیصلے کا رخ چاہے جس جانب ہو، لوگ چاہے اسے چائے کی پیالی میں طوفان کہیں یا اسے کھوسہ صاحب کے بلند عزائم کی آخری جھلک مگر تاریخ تو سوال اٹھا کر رقم کی جا چکی ہے۔
یہ سوال ڈھکا چھپا نہیں، یہ سوال کسی سینسر کی نذر نہیں، یہ سوال کسی ڈر سے دبا دبا سا نہیں، یہ بڑا دبنگ سوال ہے، جسے ببانگ دہل کیا گیا کہ آرمی چیف کو کس قانون کے تحت مدت ملازمت میں توسیع دی گئی، اور اب تک کس قانون یا رولز کی آڑ میں یہ توسیع دی یا زبردستی لی جاتی رہی۔