بارسلونا کے قونصل جنرل ہسپانیہ میں پاکستانیوں کی رینکنگ میں پہلے نمبر پر ہیں۔ سب سے بڑا کارنامہ یہ کہ سول سروس کا یہ افسر عامۃ الناس کو ’سر‘ کہہ کے مخاطب کرتا ہے اور انہیں بطورِ پاکستانی پہچان اور فخر دے کر دیارِ غیر میں پاکستانیت کو زحمت سے رحمت میں بدل کر وہ خود اعتمادی دے چکا ہے کہ اس کے بعد آنے والا اگر اس سے بڑھ کر کچھ کرے گا تو ہی قبول کیا جائے گا۔
اِس پر شہر کے ایک چوہدری صاحب نے دھیمی زبان میں کہا تھا کہ ’سی جی صاحب نا جی، فیمس ہو گئے نیں۔‘ ان کو ’جاننے والوں‘ نے حلفاً یقین دلایا تھا کہ بارسلونا دنیا کا خوش قسمت ترین شہر ہے جسے ان جیسا قونصل جنرل (سی جی) میسر آیا۔ بارسلونا کتنا خوش قسمت ہے یہ ہمیں پتہ نہیں، لیکن عام آدمی خوش بہت ہے۔
عمران علی چوہدری کی وجہ شہرت بہت ساری باتیں بنیں۔ گذشتہ ڈیڑھ سال میں انہوں نے بارسلونا ماڈل کا نہ صرف نقشہ دیا بلکہ اس کے مطابق پٹ ترپٹ اور لوہارا ترکھانا بھی کر کے دکھا دیا۔
بارسلونا ماڈل 14 نکات کی عجیب دستاویز ہے۔ کاتالونیا میں دسیوں ہزاروں پاکستانیوں اور پاکستانی نژادوں کی طرف سے جو عزت، پیار اور محبت ملی وہ سی جی کے مطابق ان 14 نکات ( گو نکات زیادہ ہیں مگر 14 کا سحر قائم رکھنے کی غرض سے یہی فرض کیا جاتا ہے) کی وجہ سے ہے، جو ان کے لیے باقاعدہ ایک عہد ہے۔
ایک سول سروس افسر کے ہاتھوں یہ لکھا جانا ان کی حسِ مزاح کی خبر بھی دیتا ہے۔ مثلاً تمام پاکستانیوں کو وقار اور عزت نفس دینا، انٹرویوز اور ڈیجیٹل نادرا تصدیق کے فوراً بعد پاسپورٹ دینا، ضرورت مندوں کو عارضی پاسپورٹ جاری کرنا، کسی پاکستانی سے ان کی قانونی حیثیت کے بارے میں سوال نہ کرنا اور ستم در ستم یہ کہ پاکستانیوں کی متعلقہ یونین کونسل کے دفاتر میں رجسٹریشن میں مدد کرنا۔
اور سُن لیں، بارسلونا کی عظیم پاکستانی کمیونٹی کی مدد سے چھت اور مالی مدد فراہم کرنا، بچوں کے لیے ہر وقت پلے زون اور ماؤں کے لیے نرسنگ روم کھلا رکھنا۔ یہ یورپ میں واحد پاکستانی قونصل خانہ ہے جو پاکستانی نژاد شہریوں کو پانچ سال کا انٹری ویزا جاری کرتا ہے اور ساتھ ہی تڑکا 24 گھنٹے ای ویزا کا۔
سی جی صاحب بہادر نے جوانوں کو بھی ٹُچ ٹانکے سے دور نہیں رکھا۔ کیریئر کے انتخاب اور سکالرشپ کے بارے میں طلبہ اور ان کے خاندان کو مفت مشاورت کی سہولت فراہم کروائی، ہر جمعے کو معزز وکلا سے مفت قانونی مشورے سے لے کر ہسپانیہ بھر میں قید پاکستانیوں کو قونصل خانے کی قانونی معاونت فراہم کرنے تک اور پاکستانی کمیونٹی میںں ہیپاٹائٹس کی تشخیص، مفت مشورے اور علاج کے لیے مقامی ٹیم کی سہولت بھی فراہم کر دی۔
ہسپانیہ بھر میں پاکستانی جو جیلوں میں بند ہیں، ان کی خدمت کے باب میں موصوف خیر سے اِدھر ڈُوبے اُدھر نکلے کے مصداق ایسے مومن واقع ہوئے ہیں کہ انگریزی کتابوں، جن کے موٹا ہونے میں اس شہر کی نمی کا بھی بہت عمل دخل ہے، کی بجائے مومن کی شاعری پڑھیں تو افاقہ لازمی ہے۔ پتہ چلا کہ فلاں ہسپتال میں کوئی پاکستانی داخل ہے تو تیمارداری کے لیے پہنچ گئے، آگ لگنے سے جلے تو جب تک میڈیکل رپورٹ نہیں ملی، دن رات ایک کیے رکھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کچھ احباب کو شکوہ بھی ہے، جسے وہ خدا کے غضب سے تعبیر کرتے ہیں۔ اچھے بھلے زیادہ سے زیادہ بارہ پڑھے، لش پش جوتے پہنے، برانڈ کا سُوٹ زیب تن کیے شخص کا ٹاکرا گاڑھی تیز کڑھی چائے جیسی انگریزی بولنے والے سادہ سے افسر سے ہو جائے اور اس پر طُرہ یہ کہ وہ آنکھیں نیم وا کیے جی سر کے بعد اردو میں بات چیت کرنا شروع کر دے اور پھر سائل کی شان کے مطابق پنجابی شروع ہو جائے تو’سٹ‘ تو لگتی ہے۔
دوستو، اس شہر کے سی جی ایک شفیق باپ ہیں، استاد رہ چکے ہیں، ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں، منجھے ہوئے پبلک سرونٹ ہیں۔ انہیں عام پاکستانی نے اگر دعوت دی تو وہ اُس کے پاس چل کر گئے۔ جو خاندان بارسلونا سے فاصلے پر رہتے ہیں اُن کے متعلقہ شہروں میں جا کر قونصل کی خدمات تک رسائی بھی اُن کی وجہ شہرت ہے۔ مگر اُن کی شہرت کو اوجِ ثریا عطا ہوا بروز 23 مارچ 2019۔
چلیے قدر دانوں، فعل ماضی جو بعید نہیں تو ایسا قریب بھی نہیں، آپ کو اُس کی گردان کرواتے ہیں۔ 23 مارچ 2019 کا سورج بالکل اُسی زاویے پر طلوع ہوا جس پر عام حالات میں ہوتا ہے۔ بارسلونا شہر کا مرکزی تھیٹر ہال ’پولی اوراما‘ معمول سے ہٹ کر بھرا ہوا۔ ہال کے اندر تو خیر سات سو کی گنجائش میں ہزار کسی نہ کسی طرح پورے آ گئے، جن میں کثیر تعداد خاندانوں کی تھی۔ سو سے زائد قونصل جنرل، ہسپانوی سیاسی اور سماجی تنظیموں کے ارکان اور اراکینِ صوبائی و قومی پارلیمنٹ تھے اور تتر بتر پاکستانی کمیونٹی کا ایک چھت تلے یہ اکٹھ۔
بارسلونا کے پاکستانیوں کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا۔ سینکڑوں لوگ ہال میں داخلہ نہ ملنے کی وجہ سے باہر جمع ہو گئے جس سے مقامی پولیس اپنے اوسان خطا کروا بیٹھی۔90 منٹ کا پروگرام تین گھنٹے سے زائد چلا، ہسپانوی مہمانوں کو اجرک اور تحائف سے نوازا گیا۔
چوہدری عمران علی نے بڑی حد تک پاکستانی کمیونٹی سے ڈر نکالا ہے۔ کمیونٹی کو احساس دلایا ہے کہ ریاست ماں ہے اور وہ اس ماں کے بیٹے۔ انہوں نے پاکستانیوں کو ہسپانوی اداروں اور جامعات کا رستہ دکھایا۔ جموں و کشمیر پر بات چلی تو وہی پروگرام جس میں سیاسی، سماجی، مذہبی رہنما دو اڑھائی سو لوگ اکٹھے کرسکتے ہیں، اُن کو ہزاروں میں پہنچایا۔ حقوق مانگنے کا طریقہ سمجھایا، اہل کو حق دیا تو نا اہل کو بھی نہیں دھتکارا۔ ڈیڑھ سال میں بارسلونا میں پاکستانی کمیونٹی کی سیاسیات اور سماجیات کو نیا رُخ عطا کیا۔
بارسلونا میں عمران علی چوہدری سے قبل بڑے افسر آئے مگر اس شہر کا مزاج افسرانہ نہیں درویشانہ ہے۔ یہاں ریاضت درکار تھی۔آج قونصل خانہ مسکن ہے علمی و ادبی سرگرمیوں کا، نارساؤں کی داد رسی کا اور پاکستانی کمیونٹی کے لیے یکساں طور پر اپنا گھر اور اس تشخص کا مسکن جو محمد علی جناح پبلک سروس سے چاہتے تھے اور وہ کیا چاہتے تھے، جسے دیکھنا ہو قونصل جنرل آف پاکستان عمران علی چوہدری سے آ کر مل سکتا ہے، کبھی بھی، کہیں بھی۔