چالیس سال کی خبریں اور موٹاپے کا جعلی بحران؟

انگریزوں نے امریکیوں کی پیروی کی اور امریکیوں نے ہارورڈ پروفیسر کے مشوروں کی لیکن پروفیسر کو پیسے دیے گئے کہ وہ لایعنی باتیں بتاتا رہے۔

موٹاپے کی شرح بڑھنے سے واضح ہے کہ چکنائی والی غذاؤں کے متبادل کے طور پر خالص اناج یا اضافی شکر لوگوں کی صحت کے لیے تباہ کن ہے۔ (فائل تصویر: اے ایف پی)

33 سالہ ڈیرن سمتھ، جن کا باڈی ماس انڈیکس یا بی ایم آئی (35) ان کی عمر کی نسبت زیادہ ہے اپنی صحت کے سلسلے میں مجھ سے ملنے آئے ہیں۔

جوں ہی میرے ڈیسک کے ساتھ رکھی کرسی میں انہوں نے اپنے آپ کو سمویا، تو انہوں نے اپنے صحت مند بازو کو بلڈ پریشر معلوم کرنے کے لیے یہ کہتے ہوئے آگے بڑھایا کہ ’کیا وہ جنرل چیک اپ کروا سکتے ہیں؟‘ وہ تھائی رائیڈ لیول ٹیسٹ کرنا چاہتے تھے، شاید کولیسٹرول ٹیسٹ بھی اور ان کا مول بھی تھا۔ انہیں دائمی کمر کا درد بھی تھا، ان کے گھٹنوں کی تکلیف بھی تھی اور لمبے عرصے سے ڈپریشن اور اضطراب بھی۔

تدبیر سے یہ سارے مسائل ایک طرف رکھتے ہوئے، میں نے ان کی صحت کے اصل مسائل پر توجہ دی: ’اگر آپ کو واقعی اپنی صحت کی فکر ہے تو اصل مسئلہ آپ کا وزن ہے جس پر ہمیں بات کرنی چاہیے۔‘

بے شک بچارے ڈیرن کو پتہ ہے کہ ان کا وزن مسئلہ ہے۔ انہوں نے بتایا: ’ڈاکٹر میں نے کئی دفعہ پرہیزی کھانا استعمال کیا۔ میں مشکل سے کبھی چکنائی کھاتا ہوں۔ ہم جب بڑے ہوئے تو ماں نے کبھی بھی صرف مکھن کا مارجرین استعمال نہیں کرنے دیا۔ میں بہت ساری سبزیاں کھاتا ہوں، گوشت تقریباً نہ کھانے کے برابر اور ان کھانوں کا استعمال ہوتا ہے جن میں گلوکوز زیادہ مقدار میں ہوتا ہے، جیسے براؤن بریڈ یا پستہ۔‘ کچھ دیر کے لیے وہ رکے اور کہا: ’میں تیل کے لیے وہ خاص سپرے بھی لایا ہوں۔‘

اس طرح کی وضاحتوں نے میرا دل مایوسی سے بھر دیا ۔ ڈیرن اور ان کے والدین پچھلے 40 سالوں سے حکومت کی طرف سے جاری کی گئی ’صحت مند غذا‘ سے متعلق ہدایات پر سختی سے عمل کرتے رہے ہیں: نشاستہ کھانا، کئی دفعہ کھانا کھانا (ایک دن میں پانچ دفعہ)، چکنائی سے گریز کرنا، انڈے نہ کھانا۔ ڈیرن کو کچھ اور پتہ نہیں کہ ان کے لیے کیا ممکن ہے، لیکن حکومت نے کتنی غلطی کی ہے؟ اور یہ قبول کیوں نہیں کرتی اور قوم سے معافی کیوں نہیں مانگتی جو اس نے ہمیں موٹاپے کے بحران میں دھکیل دیا ہے؟

گذشتہ 40 سال کی جعلی خبروں نے موٹاپے کا بحران پیدا کردیا ہے۔

انگریزوں نے امریکیوں کی پیروی کی اور امریکیوں نے ہارورڈ پروفیسر کے مشوروں کی لیکن پروفیسر کو پیسے دیے گئے کہ وہ لا یعنی باتیں بتاتا رہے۔

بینیس لینگڈن کی کوشش ہے کہ اس بات کا خیال رکھیں: ’خالص نشاستہ، چینی مضر صحت اور چکنائی مفید۔‘ لیکن ان کا کون یقین کرے گا؟

1970 کی دہائی میں برطانیہ نے امریکہ کی طرف سے مشہور کیے گئے چکنائی کے بغیر پرہیزی کھانوں کے منصوبے کی پیروی کی اور اب یوں دکھائی دیتا ہے کہ امریکی حکومت کو اپنی شوگر انڈسٹری نے بہت غلط راستے پر لگایا دیا تھا۔ محققین وہ ثبوت سامنے لا چکے ہیں کہ چینی کی صنعت نے ارادتاً زیادہ چینی اور نشاستہ کھانے کے صحت پر سنگین اثرات کے متعلق جھوٹ بولا۔

صحت پر چینی کے اثرات سے متعلق گمراہی اور غلطی اُس مضمون کی وجہ سے بنی جو ایک سائنس کے طور پر شوگر ریسرچ فاؤنڈیشن (ایس آر آیف) نے تیار کی اور 1967 میں وہ ایک مستند میڈیکل جرنل میں شائع ہوئی۔ اس کو سائنسدانوں نے لکھا لیکن اس کی منظوری اور ادائیگی شوگر کی صنعت نے کی تھی۔ یہی آرٹیکل امریکہ اور دنیا بھر میں پرہیزی غذا کی گائیڈ لائن کے طور پر بہت موثر ثابت ہوا۔ ایس آر ایف کی فنڈنگ اور مضمون لکھنے میں شمولیت ابھی ابھی لوگوں کو حقیقتاً سمجھ آئی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

50 کی دہائی میں دل کے دوروں کی شرح بہت زیادہ ہوگئی اور اس وقت ان کی ممکنہ وجہ کھانوں کو مانا جاتا تھا۔ 60 کی دہائی میں جان یودکن نامی برطانوی سائنسدان کی تحقیق کے نتیجے میں پتہ چلا کہ کھانوں میں شوگر کی زیادہ مقدار کی وجہ سے کولیسٹرول کی سطح بڑھ جاتی ہے۔

ایس آر ایف کے نائب صدر جان ہیکسن نے 1964 میں دل کے امراض پر اپنی ایک تحقیق کی منظوری کی، جس کے مطابق: ’ایسا نظر آتا ہے کہ چربی، نشاستہ یا دوسری غیر متوازن غذاؤں کی وجہ سے بڑھتی ہے۔ ہمیں احتیاط سے رپورٹوں کا جائزہ لینا چاہیے، غالباً غذائی ماہرین کے ساتھ مل کر، دیکھنا ہے کہ اس کے تجربات میں کیا کمزور نقطے ہیں اور اس طرح مطالعے کو اصلاح کے ساتھ دہرائیں۔ تب ہم مواد شائع کرسکتے ہیں اور ناقدین کی تردید کرسکتے ہیں۔‘

کاغذات کے مطابق ایس آر ایف چھ لاکھ ڈالر خرچ کرے گا تاکہ ’ان لوگوں کو، جنہوں نے بائیو کیمسٹری نہیں پڑھی، سکھائے کہ شکر ہر انسان کو زندہ رکھتی ہے اور ہماری روز مرہ کے مسائل کا سامنا کرنے کے لیے توانائی مہیا کرتی ہے۔‘

1965 میں یودکن کی تحقیق کے اثبات میں مزید شواہد آگئے جو شکر والی غذا کا دل کے امراض کے ساتھ رشتہ دکھا رہے تھے، اس دفعہ یہ شواہد امریکی سائنسدان مارک ہیگسٹیڈ کی طرف سے آئے، جو ہارورڈ سکول آف پبلک ہیلتھ میں غذائیت کے پروفیسر ہیں۔ ہیگسٹیڈ کا نتیجہ ہے کہ شوگر ہی شریان کو بند کرتی ہے اور دل کے دورے کی وجہ ہے۔ اس تحقیق پر ان دنوں اخبارات میں خاصی بحث ہوئی۔

لیکن یہ یہی ہیگسٹیڈ تھے جن کو ایس آر ایف نے جائزہ مضمون لکھنے کا کہا اور ایک بدلتے ہوئے جاسوس کی طرح ان کو 65 سو ڈالر (آج کے حساب سے 50 ہزار ڈالر) میں خریدا گیا۔ جس مضمون پر وہ کام کرہے تھے وہ اس کے تعصب سے خوب واقف تھے اور یہ ان کی خط و کتابت سے واضح ہے۔ 1966 میں ایس آر ایف کو ایک خط میں وہ وضاحت کرتے ہیں کہ انہوں نے مضمون اس لیے موخر کردیا ہے کہ نئے شواہد مسلسل چھاپے جا رہے ہیں، جو چینی اور دل کے امراض کے درمیان تعلق ظاہر کرتے ہیں۔ ہیگسٹیڈ لکھتے ہیں: ’ہر دفعہ آوا گروپ ایک پیپر چھاپتا ہے اور ہم دوبارہ تردید چھاپتے ہیں۔‘

1967 میں جائزہ مضمون نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں چھپا، جو ہیگسٹیڈ نے بہت مہارت سے لکھا۔ انہوں نے ہر اس مطالعے پر شک کا اظہار کیا جو چینی کی صنعت کے مفادات کے خلاف تھا۔ یودکن، آوا گروپ اور کئی اور سائنسدانوں کی تحقیق کو اس بنا پر نیچے دکھایا گیا کہ اس میں اعترض کے قابل مواد تھا، ان کی تشریحات غلط تھیں اور یہ امریکی خوراک جیسی بھی نہیں ہے۔ انہوں نے مطالعوں میں یکساں پیغام کہ ’شکر اور نشاستہ ہی دل کے امراض اور شریان کی بندش کی وجہ ہے‘ کو نظر انداز کیا۔

اس کی بجائے ہیگسٹیڈ نے کہا کہ غذائی کولیسٹرول اور چکنائی کا کم استعمال ہی دل کے امراض روک سکتا ہے۔ یہ جائزہ جو ہارورڈ پروفیسر نے ایک قابلِ احترام جرنل میں چھاپہ بہت موثر ثابت ہوا۔ اس کے نتیجے میں تحقیق اور ڈائٹری گائیڈنس نے سکولوں، جیلوں، ہسپتالوں اور ہر کمیونٹی میں غلط پیغام پروان چڑھایا۔

ہیگسٹیڈ کے اثر و رسوخ کا مطلب یہ تھا کہ ان کو دعوت دی گئی کہ وہ پہلے غذائی رہنمائی یعنی ڈائٹری گولز فار دی یونائٹیڈ سٹیٹس کے لیے تعارف لکھیں۔ حکومت کی اشاعت ڈائٹری گولز (1977) امریکہ میں اور نیوٹریشنل گائیڈ لائنز فار ہیلتھ ایجوکیشن (1983) برطانیہ میں تمام کیلوریز میں 30 فیصد چکنائی تجویز کرتی ہے۔ تمام نسل کو اس پر لایا گیا کہ وہ اس پر یقین کریں کہ وزن گھٹانے کے لیے چکنائی کا کم استعمال ضروری ہے۔

یہ آخرکار 2015 میں ہوا کہ امریکن ڈائٹری گائیڈلائنز ایڈوائزری کمیٹی یا ڈی جی اے سی رپورٹ نے چار دہائیوں کی نیوٹریشنل پالیسی بدل دی اور تجویز کیا کہ چکنائی کے کُل استعمال کی حد نہیں ہونی چاہیے۔ ڈی جی اے سی نے کولیسٹرول کے استعمال کو غذائی خدشہ قرار دینے کو رد کیا۔ انہوں نے خصوصی طور پر بیان کیا کہ ’کُل چکنائی کی کمی دل کے شریانوں میں خون کی روانی سے متعلق امراضِ دل کا خطرہ کم نہیں کرتا‘ اور نہ موٹاپے کو کم کرنے کے لیے کُل چکنائی کی کمی تجویز کرتی ہے۔ موٹاپے کی شرح بڑھنے سے واضح ہے کہ چکنائی والی غذاؤں کے متبادل کے طور پر خالص اناج یا اضافی شکر لوگوں کی صحت کے لیے تباہ کن ہے۔

یہ نئی ڈی جی اے سی آگے کی طرف ایک قدم ہے یا پھر یوں کہنا چاہیے کہ پیچھے کی طرف قدم، اگر ہم 1960 کی دہائی میں چھائے ہوئے پرہیزی کھانوں کے تصور کو بہتر طریقے سے سمجھتے ہیں، لیکن اس پیغام کو عمل میں لانے کے لیے سست روی اختیار کی گئی۔ برطانیہ میں نام نہاد اِیٹ ول پلیٹ ( جی او وی ڈاٹ یو کے ویب سائٹ پر شائع ہوئی) میں اس پیش رفت کی کوئی جھلک دکھائی نہیں دیتی۔

(تصویر: شٹر سٹاک)


بغیر شواہد کے دعوؤں کی تبلیغ اب بھی سکولوں میں ہو رہی ہے۔ ہفتہ پہلے میری بیٹی ایک ’فوڈ پیرامڈ‘ کا پرنٹ آؤٹ گھر لے آئی جس میں سب سے اوپر مشہور کوکین تھا، اس کی لمبی چوڑی بنیاد میں کئی قسم کی روٹیوں اور پستے کے استعمال کو فروغ دیا گیا تھا۔

کئی سالوں کے لیے کم چکنائی کے استعمال کا مطلب یہ ہے کہ آبادی کی اکثریت اب بھی اس کے استعمال سے دریغ کرتی ہے جبکہ خالص کاربو ہائیڈریٹس کو زیادہ کھاتی ہیں۔ منطقی طور پر حکومت اس کی ذمہ دار ہے اور اپنی مضر نصیحت کی وجہ سے اس کو قوم سے معافی مانگنی چاہیے۔ میرے مریض ڈیرن کو نہیں پتہ کہ ’چکنائی سے دور رہیں‘ کی گائیڈ لائن ان کے دماغ میں ڈال دی گئی ہے یا یہ کہ نشاستہ ان کو موٹا رکھتا ہے اور ان کا وزن گھٹنے نہیں دیتا۔ ان کو کچھ نہ کچھ اندازہ ہے کہ زیادہ سبزی (ایک دن میں پانچ دفعہ) کھانا بہتر ہے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ اس کو کم کھانا کھانا چاہیے۔ کسی نے ان کو یہ نہیں سمجھایا کہ انڈے بہتر ہیں اور یہ ان کا کولیسٹرول نہیں بڑھائے گا لیکن زیادہ روٹی کھانے سے بڑھ جائے گا-

یہ وہ توڑ موڑ ہے کہ جس نے ان کو جہالت میں دھکیل دیا، جب کہ حکومت ایسا دکھاتی ہے کہ اس کی ہدایات نے کوئی نقصان نہیں کیا۔ شاید آپ یہ پڑھ کر کہیں: ’اچھا، ان کو جہالت میں نہ چھوڑیں، ان کو جلدی سے بتا دیں کہ کیا کرنا ہے۔‘

بے شک میں بتاتی ہوں۔ میں لکھ بھی دیتی ہوں۔ میں سرخی بھی لکھ دیتی ہوں: ’کم کھانا کھائیں۔‘ پھر میں لکھتی ہوں: ’1۔ الکوحل سے پرہیز 2۔ شکر سے پرہیز 3۔ نشاستہ کا کم استعمال ( گوشت بہتر ہے، چکنائی والے کھانے بہتر ہیں، سبزی بہتر ہے)‘

لیکن ایک میری آواز، کہ نشاستہ ٹھیک نہیں، چکنائی ٹھیک ہے تاکہ دہائیوں سے جاری کئی آوازوں کی مخالف سمت چلوں، غیرموثر ہوگی۔ برطانیہ کے چیف میڈیکل آفیسر کی حالیہ رپورٹ، جس کی رُو سے برطانیہ میں موٹاپا علاج کے قابل مریضوں کی اموات اور معذوری کی سب سے بڑی وجہ ہے، سے میں مکمل اتفاق کرتی ہوں۔

اگر چیف ہیلتھ آفیسر اور حکومت کی واقعی یہ خواہش ہے کہ ایک صحت مند ماحول پیدا کریں تو ان کو اس کی ابتدا ایک خوب تشہیر والی معافی سے کرنی چاہیے اور 40 سالہ ایڈوائس جو موٹاپے کی پہلی وجہ ہے، کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔ اس میں شاید ان کی غلطی نہ ہو، ان کو ہیگسٹیڈ کے اثر و رسوخ نے بے وقوف بنایا، جو چینی کی صنعت کی غلط خبر نے جھونکا تھا اور غلامانہ طور پر امریکہ کی پیروی نے۔ لیکن ذمہ داری قبول کرنا اہم ہے تاکہ ڈیرن اور ہم سب اپنی سوچ تبدیل کریں کہ ہم کیا کھائیں۔ 2016 میں جاری ایک بیان کے ذریعے (برطانیہ کی) شوگر ایسوسی ایشن نے کہا کہ بہت پہلے کے واقعات پر بات کرنا مشکل ہے۔ ’ہم مانتے ہیں کہ شوگر ریسرچ فاؤنڈیشن کو اپنی تمام تحقیقات زیادہ شفاف رکھنی چاہیے تھیں۔ تاہم جب وہ مطالعہ شائع ہوا تو اس وقت فنڈنگ معلومات کی شفافیت کا معیار وہ نہ تھا جو آج ہے۔‘

’عموماً یہ نہ صرف بدقسمتی ہے بلکہ بربادی ہے کہ انڈسٹری کی مالی معاونت سے کی گئی تحقیق داغ دار ہے، لیکن بحث سے یہ بالکل غائب ہے کہ اس صنعت کی یہ تحقیق معلوماتی تھی اور کلیدی مسائل پر لکھی گئی تھی۔‘

اسی دوران حکومت کو اپنی اِیٹ ول پلیٹ پر دھوم دھام سے کام کرنا چاہیے۔ اس کو تازہ معلومات پر مبنی راست ایڈوائس سکولوں میں متعارف کرانی چاہیے اور اس کی جڑ پکڑنے کے لیے کچھ سال چاہیے ہوتے ہیں اور آخری نقطہ یہ کہ چینی اور دل کے امراض کے شواہد پر تنقید کرنے والی چینی کی صنعت کو ختم کرنا چاہیے۔ چینی صنعت کے اثر و رسوخ تباہ کن ہیں اور حکومت کا ردعمل افسوس ناک۔ گائیڈ لائنز کو اب واضح کرنا چاہیے کہ ’چینی زہر ہے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت