سپریم کورٹ کی جانب سے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے مقدمے میں فیصلے کے بعد وزیر اعظم عمران خان صاحب نے بیان دیا کہ ’شکر ہے اداروں کے درمیان تصادم کا خدشہ دور ہو گیا۔‘ میں اب تک یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آئین اور قانون کو لاگو کرنے سے اداروں میں تصادم کیوں ہوگا؟
کیا وزیر اعظم اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ کچھ ادارے خود کو آئین سے بالاتر سمجھتے ہیں؟ وزیر اعظم اب تک ملک میں تقسیم بڑھانے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں کر رہے۔
میں یہ بھی سمجھنے سے قاصر ہوں کہ سپریم کورٹ کو کس نے یہ اختیار دیا کہ آئین کی بجائے اپنی ذاتی سوچ کو قانون کا درجہ دیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سپریم کورٹ بھی آئین کو کچھ زیادہ اہمیت نہیں دیتی۔ یہ دونوں باتیں میرے اس فیصلے کی توثیق کر رہی ہیں کہ موجودہ جمہوریہ ناکام اور ناکارہ ہے۔ میں اس بات پر سپریم کورٹ کے جج صاحبان اور وزیر اعظم کا شکریہ ہی ادا کر سکتا ہوں۔
دوسری طرف دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے اس قسم کے بیانات دینے شروع کیے ہیں جس سے عوام میں یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ ایک دفعہ پھر موجودہ صورت حال کو قومی مفاد کی بجائے اپنی پارٹیوں اور ان کے سربراہوں کے مفاد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان جماعتوں کے ماضی کے فیصلے بھی آپ کے سامنے ہیں جس کی وجہ سے ہم آج ان مشکل حالات سے دو چار ہیں۔
ان ماضی کی غلطیوں کو ان جماعتوں کے رہنما خود بھی کئی مرتبہ قبول کر چکے ہیں۔ تمام پارٹیاں اس بات پر بھی متفق ہیں کہ ماضی کے تمام الیکشن دھاندلی زدہ تھے، جو اس بات کی غمازی ہے کہ یہ پارٹیاں عوام کے حقیقی مینڈیٹ کی حامل نہیں۔ کیا ان تمام شواہد کے ہوتے ہوئے ہم یہ قبول کر سکتے ہیں کہ آرمی چیف کی ایکسٹینشن کی قانون سازی ان کے ذمہ لگائی جائے؟
اس معاملے پر تجربہ کار لوگوں سے مشاورت ہوئی۔ ہمارے گروپ کی اکثریتی رائے یہ ہے کہ ادارے شخصیات سے برتر ہیں اور انہیں سیاست کی نظر نہیں کیا جا سکتا، مگر چونکہ سپریم کورٹ نے ایک حکم دیا ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ قانون سازی کی ضرورت ہے یا نہیں اس لیے اس بات پر غور کرنا ضروری ہے۔
میں نے حزب اختلاف کی پارٹیوں کو یہ پیغام بھیجا ہے کہ ہم آرمی چیف کی ایکسٹینشن کی قانون سازی کو اس وقت تک قبول نہیں کریں گے جب تک مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات نہیں دیے جاتے:
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
1۔ اس بات کو ثابت کیا جائے کہ آرمی میں جنرل باجوہ کے پائے کا کوئی جنرل موجود نہیں جو ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد اس ادارے کی سربراہی کر سکے۔
2۔ اس بات کو ثابت کیا جائے کہ خطے میں صورت حال جنگی نوعیت کی ہے اور شواہد دیے جائیں کہ صرف جنرل باجوہ ہی اس صورت حال کو سنبھال سکتے ہیں۔
3۔ تقریباً ہر سیاسی پارٹی اور تجزیہ نگار نے خدشات ظاہر کیے ہیں کہ پچھلے الیکشن میں فوج کا ادارہ سیاسی انجینیئرنگ میں مبینہ طور پر ملوث رہا، تاہم فوج کے ترجمان نے بار بار اس بات کی تردید کی۔ حکومتی پارٹی نے اس بات کو یقینی بنایا کہ پارلیمانی کمیٹی الیکشن کی تحقیقات نہ کر سکے اس لیے قوم کے سامنے حقائق نہ آ سکے۔
ایسی صورت میں ہم مکمل یقین سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ واقعی فوج کا ادارہ سیاست اور الیکشن میں ملوث تھا کہ نہیں۔ ایسی صورت میں صرف ایک ہی راستہ ہے وہ یہ کہ جنرل باجوہ اس بات کا حلف نامہ دیں کہ ان کی سربراہی میں فوج سیاست سے دور رہی اور الیکشن انجینیئرنگ میں اس کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔
ان سوالات کے تسلی بخش جوابات ملنے کے بعد ہی متوقع قانون کے مسودے پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔ اگر حکومت اور حزب اختلاف نے ہمارے ان سوالات کو نظر انداز کیا تو اس قانون سازی کے خلاف آواز بلند کی جائے گی تاکہ عوامی اور ریاستی اداروں اور آئین کے تحفظ کی کوشش کی جائے جو مسلسل زوال پذیر ہیں۔
میں سمجھتا ہوں موجودہ آئین اور قوانین کا تحفظ ہم سب پر لازم ہے ورنہ معاشرے میں مزید خرابیاں پیدا ہوں گی۔