یہ جب کی بات ہے کہ مَیں میٹرک کا امتحان دے چکا تھا اور 1991 کے دن تھے۔ ہمارے رزلٹ کارڈ لاہور سیکنڈری بورڈ نے روک لیے، اُن کی کوئی اضافی فیس رہتی تھی جو ہم سے وصول کرنا چاہتے تھے۔
ہم تین دوست اپنے گاؤں سے لاہور کے لیے روانہ ہوئے کہ رزلٹ کارڈ لے آئیں اور پیسے دے آئیں اور سیر بھی کر آئیں۔ تب اوکاڑا سے لاہور آنے والی بسیں بس یونہی سی ہوتی تھیں۔ سنگل روڈ تھی اور کھٹارا سسٹم تھا۔ ہمارا گاؤں اوکاڑا سے 12 کلومیٹر دیپالپور روڈ پر واقع ہے۔ جس میں آٹھ کلومیٹر بس پر کرتے تھے باقی کے چار سائیکلوں یا تانگوں پر کیا جاتا تھا۔
ہم تینوں دوست ایک سائیکل پر بیٹھ کر 32 موڑ نامی جگہ تک آئے، وہیں سائیکل کھڑی کر کے تالا لگا دیا۔ اکثر شہر کو جانے والے اِس جگہ سائیکل کو تالا لگا کر رکھ دیتے تھے اور آگے بس کے ذریعے شہر جاتے تھے۔ واپسی پر سائیکل پکڑ کر گاؤں آ جاتے۔ یوں تو تانگے بھی یہاں چلتے تھے مگر سائیکل میں انتظار نہ کرنا پڑتا تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہاں سائکلیں کبھی چوری نہیں ہوتی تھیں۔
ارد گرد کوئی آبادی نہیں تھی نہ کوئی دکان تھی۔ ہمارا ارادہ یہ تھا کہ سات بجے اوکاڑا سے بس پر بیٹھیں گے، چار گھنٹے یعنی 11 بجے لاہور پہنچ جائیں گے تین سے چار گھنٹے وہاں رہ کر اپنا کام کر کے اگر تین بجے بھی چلے تو شام سات بجے وٓآپس اوکاڑا آ جائیں گے، شام سے پہلے اپنی سائیکل اٹھائیں گے اور گھر روانہ ہو جائیں گے۔ تب کوئی سوا سات بجے شام ہوتی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سب کچھ پروگرام کے مطابق تھا۔ اُن دِنوں ہمارے پاس سٹوڈنٹس کارڈ ہوتے تھے اور کرائے کی جگہ صرف یہی دکھائے جاتے تھے۔ اُس کے ساتھ چونی کرایہ بھی دیا جاتا تھا۔ اِن کارڈز کی وجہ سے اکثر سٹوڈنٹس اور بس والوں کے درمیان تیغ و سناں کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ ہوتا یہ تھا کہ اگر سٹوڈنٹس اکیلے ہوتے تو بس والے زور دکھاتے، سٹوڈنٹس زیادہ ہوتے تو بس والے مار کھاتے اور کارڈز دکھا کر بس والے کو کرایہ نہیں دیا جاتا تھا۔ ویسے بھی کرایہ اُس وقت لاہور کا فقط دس روپے ہوتا تھا۔
ہم تینوں لاہور آ گئے، ایک بجے لاہور بورڈ سے اپنے رزلٹ کارڈ لے کر نکلے تو دل میں عجیب تمنا جاگی کہ چلو ایک پھیرا اپنے رشتہ داروں کے ہاں لگا لیں۔ رشتے دار صدر کینٹ میں بستے تھے۔ ہم ایک لوکل بس پر بیٹھ گئے۔ جب بس والے نے کرایہ مانگا تو اُنھیں کارڈ دکھا کر پانچ روپے بھی دیے کہ 12 آنے کاٹ کر باقی واپس کرے۔ اُس نے کارڈ دیکھ کر اندازہ لگا لیا کہ لونڈے لاہور کے نہیں ہیں اورپانچ کے پانچ رکھ لیے۔ ہم نے پیسے واپسی کا تقاضا کیا تو کنڈیکٹر اکڑ گیا، بولا، ’بکواس نہ کرو، ورنہ جوتے ماروں گا۔‘
ان دنوں ہم بھی پرجوش لونڈے تھے مگر میٹرک کا بچہ تو بس لونڈا ہی ہوتا ہے۔ چنانچہ لڑائی شروع ہو گئی۔ ہم تینوں نے کنڈیکٹر کی تو دھلائی کر دی مگر ڈرائیور بہت گینڈے کی طرح موٹا تازہ تھا۔ اُس نے ہمیں تینوں کو کان سے دبوچ لیا، اتنے میں ہماری خوش بختی کہ پولیس کے دو آدمی چلے آئے۔ چنانچہ ڈرائیور کی مار سے بچ گئے مگر پولیس والوں نے ہم تینوں کو پکڑ لیا اور قریب کے تھانے میں لے گئے کہ بدمعاشی کرتے ہیں۔
پہلے تو تھانے میں تین گھنٹے بٹھائے رکھا۔ ہم روتے رہے اور منتیں کرتے رہے۔ تب کہیں شام کے پانچ بجے اُس نے ہم سے سو روپیہ لے کر چھوڑا۔ جب ہم نے کہا کہ ’بھائی اب تو اوکاڑا جانے کا کرایہ بھی نہیں ہے تو 30 روپے واپس کیے کہ لو یہ پیسے اور نکلو یہاں سے۔
اب ہمیں یہ فکر لاحق ہوئی کہ اگر شام تک نہ پہنچے تو 32 موڑ پر پڑی سائیکل کوئی اُٹھا کر لے جائے گا۔ ان دِنوں بادامی باغ سے بسیں اوکاڑا کے لیے جاتی تھیں، ایک تانگے پر بیٹھ کر وہاں پہنچے اور اللہ اللہ کر کے رات نو بجے اوکاڑا آئے۔ اُس کے بعد جب رات دس بجے کے قریب 32 موڑ پہنچے تو دیکھا کہ وہاں ہماری سائیکل غائب تھی۔ یہ نئی نکور سائیکل تھی۔ جسے مَیں نے قسطوں پر لیا تھا اور ہر ماہ کی قسط 65 روپے تھی۔ کچھ نہ پوچھیں کس قدر افسوس اِس کا ہوا۔ تب سائیکل آج کی موٹر سائیکل کی قیمت جتنی ہو گی۔
یہاں سے چار میل پیدل چل کر رات 12 بجے گھر پہنچے اور ابا میاں سے سائیکل گم ہونے کے جوتے کھائے۔ اُس کے بعد گیارویں جماعت میں داخل ہونے کے بعد ایک اور سائیکل قسطوں پر خریدی۔ یوں سائیکل تو میرے پاس ایک تھی لیکن قسطیں دو سائیکلوں کی دیتا تھا اور دیہاڑی مزدوری سے پیسے ادا کرتا تھا۔ اِس واقعے کو زمانے گزر گئے یعنی کم و بیش 12 سال۔ حتیٰ کہ 2003 کا زمانہ آ گیا۔
ان دنوں سید انور حسین شیرازی ہمارے گاؤں سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر رہتے تھے اور 32 موڑ سے ایک کلومیٹر پر تھے۔ 32 موڑ کی وہ زمین جہاں کبھی ہم نے سائیکل کھڑی کی تھی اُسی شیرازی صاحب کی تھی۔ سید صاحب سے میرا بہت دوستانہ تھا۔ وہ بوڑھے آدمی تھے مگر بہت جی دار تھے۔ کہنے لگے، ’ناطق، میرا جی چاہتا ہے مَیں یہاں بتی موڑ پر ایک مسجد بنا دوں اور نلکا لگوا دوں کہ آتے جاتے مسافروں کو راحت ہو۔ آپ کو میں مزدوری اور میٹریل دیتا ہوں یہاں ایک مسجد کھڑی کر دیں۔‘
نیکی اور پوچھ پوچھ، میں تیار ہو گیا۔ چنانچہ ہوا یہ کہ مَیں نے وہاں دو تین مزدور لے کر مسجد کی بنیادیں کھدوانا شروع کر دیں۔ وہاں ایک چھوٹا کنواں تھا جس کا پانی نہایت کڑوا تھا، اُس کنویں کا پانی پینے کے کم ہی کام آتا تھا حتیٰ کہ وہاں موجود تانگوں میں جُتے گھوڑے بھی اِس کا پانی نہیں پیتے تھے اور فقط اینٹوں کی ترائی ہی ہو سکتی تھی۔ یہ کنواں اللہ جانے کتنے عرصے سے بند پڑا تھا اور پانی سوکھ چکا تھا۔ کسی اللہ کے بندے نے اِس کے منہ پر دو تین پتھر رکھ دیے تھے کہ کوئی کنویں میں نہ گر جائے۔ یہ علاقہ اُن دنوں شور زدہ تھا۔ کبھی پانی زمین کے نیچے چلا جاتا اور جب کبھی بارشیں زیادہ ہوتیں تو پانی اوپر آ جاتا۔
اب مسجد بنانے کے لیے ہمیں پانی کی ضرورت تھی اور ارد گرد پانی موجود نہیں تھا۔ ہم نے سوچا کیوں نہ اِس کنویں کو دوبارہ آباد کیا جائے۔ اگر اِس میں سے مزید تھوڑی سی کھدائی کرا لی جائے تو پانی اُوپر آ جائے گا۔ اور ہم آسانی سے مسجد کی تعمیر کر سکیں گے۔ جب مسجد کی بنیادیں کھود دی گئیں اور اُن میں اینٹیں چُننے لگے تو ہم نے کنویں کو استعمال کرنے کے لیے پہلے مزدوروں سے کہا بھائی لوگو اِس کنویں میں داخل ہو کر ذرا اِس کی مزید ایک دو فٹ کھدائی کر دو تاکہ پانی نکل آئے۔ چنانچہ ہم نے کنویں کے منہ پر پڑی پتھر کی صلیبیں اٹھانا شروع کر دیں۔ جب صلیبیں اٹھا چکے تو دیکھا کہ ایک سائیکل اُس میں پڑی ہوئی ہے۔ سائیکل کو باہر نکالا اور دیکھ کر حیران ہوا کہ یہ تو وہی میری 12 سال پرانی سائیکل تھی اور کسی بھڑوے نے اِس کنویں میں پھینک کر اوپر اُسی طرح صلیبیں جما دی تھیں۔
یہ اُس بندے کی شرارت تھی یا چوری تھی، مگر بعد میں وہ بھی اِسے نکالنا بھول گیا۔ سائیکل کی کچھ چیزیں سلامت تھیں اور کچھ کو نمک کھا گیا تھا۔ مَیں یہ سائیکل اٹھا کر گاؤں لے آیا اور اُسے نئے سِرے سے مرمت کرا کر دوبارہ استعمال میں لے آیا۔ پھر یہ سائیکل پانچ سال تک میرے کام آئی۔ اِسی سائیکل پر اب مَیں 32 موڑ آتا تھا۔ اور مسجد کا کام کر کے وآپس اِسی سائیکل پر گاؤں جاتا تھا۔ اِس مسجد کو مَیں نے چار ماہ میں مکمل کر دیا۔
اتفاق سے مسجد مکمل کرتے ہی سید انور حسین شیرازی صاحب فوت ہو گئے۔ آج وہ مسجد وہیں کھڑی ہے، وہ کنواں، وہ نلکا بھی وہیں موجود ہے۔ سائیکل بعد میں اپنے چچا زاد کو دے دی جس نے آخر کار اُسے مرونڈے والے کو بیچ کر مرونڈا کھا لیا۔