میرے ہم وطنو، دس اکتوبر کو نیویارک ایئر پورٹ کے دالانوں سے باہر آیا تو سیدھا اپنے آپ کو احتشام قریشی کی گرفتاری میں پایا۔ احتشام بابو دل کا ڈاکٹر ہےاور دل ہی میں اُتر گیا۔
خاص ہمیں لینے کے واسطے نیویارک سے تین سو کلومیٹر دور ایک ریاست ڈیلاویئر سے آیا اور اُچک کر وہیں سے الٹے قدموں واپس ہو لیا۔ راستے میں نیوجرسی رُکا، اور بھی کئی کئی قصبوں کی سیر کراتا ہوا اپنے گھر لا جمایا۔
یہ جگہ ویسے تو ایسٹ کوسٹ کہلاتی ہے مگر اس کی صورت جنت سے ٹکر کھاتی ہے۔ چاروں اور سبزے کی فراوانی، اونچے اور چھتناردرختوں کی نگہبانی، جنگلوں میں ہرنوں کی چوکڑیاں اور موروں کی جھنکاریں آفتابِ روشن کے سائے میں بولتی ہیں، دائیں طرف ہرا سمندر موجیں بھرتا ہے، بائیں طرف کھیتوں اور کھلیانوں کا سلسلہ چلتا ہے۔
درختوں کے پتے ہزاروں رنگ کے ہیں، ہوا میں تازگی اور خوشبو کا پھریرا لہراتا ہے۔ گھاس اتنی صاف، ہری اور چمکیلی ہے کہ ہرن بن کر کھا جانے کو جی چاہتا ہے۔ کبھی جو ہم پریوں کا دیس سُنتے تھے اُس کا نظارہ اب یہاں آ کے کیا ہے۔ اللہ جانے حاتم طائی اپنی ہفت سیر میں یہاں کیوں نہ آیا۔ کاش آتا اور ہمارا کولمبس کہلاتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
احتشام قریشی کی بیگم اور ہماری بھابھی یعنی ریحانہ رضوی بھی ایک عدد ڈاکٹر ہیں اور ایسی وضع دار بی بی ہم نے قیامت تک نہ دیکھی نہ سُنی۔ اُنھیں سب کچھ آتا ہے ایک چائے بنانے کے سوا اور وہ ہم اُنھیں سکھا آئے ہیں۔ اُن کا گھر اتنا خوبصورت اور ہرا بھرا ہے کہ واللہ کیا کہیے۔ احتشام بھائی کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ اُن میں سے ایک بیٹی افسانہ نگار اور شاعرہ ہے اور بیٹا ایکٹر ہے۔ ہم نے اُن سے ایک افسانہ سُنا اور ایک نظم سنی، واللہ اپنی عمر سے یہ دونوں چیزیں بڑی تھیں، اللہ نظرِِ حسد سے بچائے۔
ہمیں کچھ خبر نہ تھی کہ ہمارے آنے پہ کیا کیا انتظام کیے بیٹھے ہیں۔ یعنی دوسرے دن ایک بہت بڑی تقریب کا ڈول ڈالے بیٹھے تھے۔ 11 اکتوبر کو ہم صبح جاگے اور پہلے تو اکیلے سیر کو نکلے، ہرنوں اور موروں کے بیچ اپنی ممبر شپ کروائی اور کوئی دو گھنٹے بعد گھر لوٹے۔ تب احتشام ہمیں ناشتے کے بہانے باہر لے دوڑے اور ایسی ایسی دل آویز بستیوں سے ہوتے ہوئے ایک بڑے میٹرو سٹور میں جا پڑے کہ صاحب پاکستان میں ایسا نہ ہوگا۔
شام کو اُنہوں نے ہماری خاطر اپنے گھر میں ایک شام رکھی ہوئی تھی اور سو بندوں کو دعوت دے رکھی تھی۔ اُسی کی خاطر سامانِ خورونوش لینا تھا۔ جب ہم پہنچے تو سپر سٹور میں تو عجب تماشا چلا، جب وہ بیگم کی بتائی ہوئی اشیا خرید چکتے تو تھوڑی دیر میں ایک نئی لسٹ وٹس اپ ہو کر آ جاتی، وہ بچارے اُنہیں خریدتے تو ایک تیسری لسٹ طلوع ہوتی۔
وہ چیزیں لیے جاتے تھے اور بھابھی کی تعریفیں کیے جاتے تھے کہ بھلی آدمی ہے مجھے پورا نیک سیرت خاوند سمجھتی ہے۔ خیر اس کے بعد وہاں سے ہمارے لیے اُنہوں نے دو پینٹیں، چار شرٹیں، ایک ٹراؤزر، ایک جیکٹ لیدر کی، شیو کا سامان، کریم پاؤڈر کا سامان اور اخروٹ بادام کا پورا گودام خریدا اور بذریعہ کرنسی ڈالر خریدا۔
اور تم کیا جانو یہ ڈالر کیا ہے، ہمارے مولویوں، سیاسیوں، فوجی بھائیوں اور بزنس مینوں کا مائی باپ ہے۔ اِس کی خوشبو خون کی خوشبو سے زیادہ ہے، اس لیے خون پر سبقت رکھتی ہے۔ تو بعد از ڈالر فروشی بعوض اشیا ہم چلے ایک ریستوران کی طرف ناشتہ کرنے، جہاں عام یعنی غریب امریکی اچھا ناشتہ فرما سکتے ہیں۔
ہم اندر داخل ہوئے تو احتشام میاں کا تقاضا تھا کہ ہم گوشت کھائیں، انڈے کھائیں، مگر ہم ڈرے ہوئے تھے کہیں از قسم سؤر نہ ہو، بندر نہ ہو، بندہ نہ ہو۔ اُن سے کہا: ’بھائی حرام کی کمائی تو بصد شوق کھا لیں گے بلکہ ہم کیا اللہ کا شکر ہے سارا پاکستان کھاتا ہے مگر یہ حرام گوشت نہیں کھائیں گے کہ آخر کچھ مسلمانی تو باقی رہ جائے۔ ہمیں آلو بُھجیا کھلا دیں۔‘ وہ بولے: ’ڈرو مت یہ کافر لوگ ہیں، مسلمانی کے قریب بھی نہیں پھٹکے، جو بتاتے ہیں وہی کھلاتے ہیں۔‘ گدھا یہاں مال برداری کے کام آتا ہے مگر ہم نے ایک نہیں سُنی اور آلو بھجیا سے پیٹ کا دوزخ آنکا۔
یہ ریستوران امریکہ کے ایک عام ٹاؤن میں تھا اورعام سا تھا اور غریب غربا کے لیے تھا لیکن جب میں نے اس کی ہیئت، ڈیزائننگ پر نظر کی تو سوچا عین اِسی ہیئت کو سو گنا ذرا نچلے درجے پر لے آؤ تو اسلام آباد میں ہماری اشرافیہ کے ریستوران ایسے ہی ہوتے ہیں اوروہاں جتنے پیسے ایک آدمی پر اُٹھتے ہیں، غریب کا پورا ٹبر اتنے میں کھا سکتا ہے۔ یعنی اسلام آباد، لاہور اور کراچی کی اشرافیہ کے اکثر کیفوں اور چائے خانوں کی شکلیں امریکہ کے تیسرے درجے کے ہوٹلوں کی گھٹیا نقالی ہوتی ہیں۔
وہاں سے نکلے تو سمندر کنارے آ گئے، احتشام نے مجھے وہ جگہیں دکھائیں جہاں ننگی دنیا ساحلوں کا رُخ کرتی ہے، لیٹتی ہے، مزے مارتی ہے۔ یہ جہان آباد اکثر بُڈھوں اور گیز کی دنیا تھا اور بہت خوبصورت جگہ تھی۔ انسانوں سے زیادہ انسانوں کی گودیوں میں کتے تھے۔ لیکن آج نہ کوئی یہاں تصویرِ بتاں تھی نہ خود بُت کوئی وہاں تھا۔ بآلاخر گھوم گھما کر واپس گھر کو لوٹے۔
ریحانہ بی بی اِتنے میں کوئی سو طرح کا کھانا منگوا چکی تھیں، یہ کھانا شام کے لیے تھا مگر ہماری رال اُسے دیکھ کر اُسی وقت بہہ گئی، اصلاً تو پاکستانی ہی تھے، چنانچہ علامہ اقبال کی طرح سہ پہر میں ہی روزہ افطار کیا۔ سو ہم نے کھانا کھایا، پھل کھایا، پھر خود چائے بنا کر پی۔ بھائیو، چائے کے معاملے میں امریکہ سے لے کر پاکستان تک، سب بڑے ہوٹل اور اَپر مڈل کلاس سے لے کر اشرافیہ تک، سب کے باورچی ایک ہی قسم کے ہُنرمند ہیں اور بُری چائے بنانے میں اپنا کمال رکھتے ہیں۔ اِس لیے کم از کم چائے کے معاملے میں ہم رِسک نہیں لیتے اور خود بناتے ہیں، یہاں بھی یہی کیا۔ خود بنائی، آپ بھی پی اور احتشام بھیا اور ریحانہ بھابھی کو بھی پلائی اور آئندہ کے لیے اُن کو یہ کام نیکی کے ساتھ کرنے کی تلقین فرمائی۔
شام سے ذرا پہلے ابھی مہمانان نہیں آئے تھے کہ ریحانہ رضوی احتشام سے مہمانوں کے معاملے میں کہنے لگی کہ جب وہ آئیں تو اُنہیں جاتے ہوئے کچھ ڈالر بھی دینے چاہییں۔ ہم نے کہا بھئی یہ کیا ظلم کرتے ہو، آخر اُن کے شعر بھی تو سُن رہے ہیں مگر وہ اللہ کی بندی نہ مانی اور ہر شاعر کو تین سو ڈالر دینے کی ٹھانی۔
لو جی اللہ اللہ کرکے شاعر اور انسان آنے شروع ہوئے اور سات بجے شام تک کم و بیش 50 لوگ آ گئے۔ تب کھانا کھُل گیا۔ امریکہ میں لوگ کھانا کھا کر فوراً نہیں بھاگتے اِس لیے کسی تقریب یا مشاعرے میں کھانا مہمانوں کو پہلے پیش کر دیا جاتا ہے، تاکہ اُن کا دھیان شعر سے ہٹ کر کھانے کی طرف نہ جائے۔
اب سُنیے مَیں سمجھ رہا تھا، یہ شاعر لوگ آس پڑوس سے اکٹھے کیے گئے ہیں مگر جب کھوج شروع ہوا تو معلوم پڑا، کوئی تین سمندر پار کرکے آیا ہے، کوئی تین دریا پار کرکے آیا ہے، کوئی تین سٹیٹوں سے پرے منگوایا ہے۔
تب مجھے اُن پر تین سو ڈالر قربان کرنے کی سمجھ آئی۔ ہمیں کتنے ڈالر ملے؟ بھائی ہماری وقعت سے زیادہ ملے۔ اُن شاعروں میں ایک شاعرہ تھی اور وہ تھی صبیحہ بی بی، باقی اللہ کے نیک بندے تھے اور شاعر کہلاتے تھے۔ ایک اُن میں خالد صاحب تھے، وہ کہتے تھے کہ وہ مزاحیہ شاعری کرتے ہیں۔ مجھے واقعی مزاحیہ لگے۔
سب سے اچھی بات یہ ہوئی کہ جب ہم نے اپنی نظمیں سنائیں اور ایک نثر کا ٹکرا سنایا تو وہ کتابیں جو ہم وہاں منافع کی خاطر لے گئے تھے، وہیں آدھی بک گئیں، ایک کتاب کے ہم نے 20 ڈالر کہہ دیے تھے، خود سمجھ لو 40 کتابوں کے کتنے ہوں گے۔
باقی کی آدھی اگلے دن ظفر زیدی مشاعرے میں احباب مول لے گئے اور ہمیں ڈالر دے گئے۔ یہ محفل ایک عالم کی جاذبِ دل تھی اور یاد گار ایسی کہ کچھ نہ پوچھیے، میاں جہاں جہاں ہمیں مرکزیت ملے گی، ہم اُسے یاد گارِ محفل ہی کہیں گے، تم جو مرضی کر لو۔ غرض یہ ہنگامۂ نشاط رات دو بجے تک چلا۔
احتشام صاحب اور ریحانہ رضوی صاحبہ کی خوشی دیدنی تھی، ہماری خاطرداری ایسے کرتے جاتے تھے جیسے ہم کوئی انمول خزانہ ہوں اور اُن کے ہاتھ لگ گئے ہوں، بخدا ایسی محبت کہیں سُنی نہ دیکھی۔ میاں کیا پوچھتے ہو ہمارے آنسو نکلنے کا مدار ہوتا تھا اور ہم روکتے تھے۔ اے پاکستانیو، تم بھی ہماری قدر کرو کہ ہم نایاب بہت ہیں، پھر ہاتھ نہ آویں گے۔ رات ہم سو گئے۔
اگلے دن نیویارک جانا تھا اور ظفر زیدی مشاعرے میں شامل ہونا تھا جس کی باگ حمیرہ رحمان کے ہاتھ میں ہے اور ہمیں یہاں لے کر جانا تھا احتشام قریشی بھائی نے اور ریحانہ رضوی بی بی نے۔ اب اگلے دن کا احوال اگلے دن پر چھوڑتے ہیں۔