دو فوجوں کے درمیان لڑائی اور داؤ پیچ کے کھیل کا نام شطرنج کہلاتا ہے جو قدیم کھیلوں میں سے ایک ہے۔
بلوچستان میں 90 کی دہائی سے قبل کوئٹہ میں شطرنج کا کھیل مقبول تھا اور مختلف علاقوں میں چیس کلب تھے جہاں نوجوان اور بوڑھے روزانہ آکر اس کھیل سے لطف اندوز ہوتے تھے۔
وقت کے ساتھ یہ کلب بند ہوتے گئے اور آج کی نئی نسل شطرنج کے کھیل سے ہی واقف نہیں۔ لیکن چند لوگ دوبارہ اس کھیل کو زندہ کرنے کی کوششوں میں لگے ہیں۔
بائیس سالہ طالبعلم شیر محمد میروانی کو نہیں معلوم تھا کہ شطرنج بھی کوئی کھیل ہے اور کوئٹہ میں اس کے کھیلنے والے بھی موجود ہیں۔
شیر محمد کے مطابق کہ انہوں نے ایک بار اپنے کلاس فیلو کو جب شطرنج کھیلتے دیکھا تو انھیں بھی شوق ہوا اور انھوں نے اپنے دوست کو کہا کہ انھوں نے بھی یہ کھیل سیکھنا ہے اور 15 دن ہوئے ہیں کہ وہ اس کھیل سے واقفیت حاصل کرچکے ہیں۔
ان کے بقول یہ بہت دلچسپ کھیل ہے جو کسی انسان کی تربیت اور اپنے فیصلوں میں منصوبہ بندی کرنے کا طریقہ سکھاتا ہے۔
شیر محمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے جب اس کھیل کو سیکھا تو صرف وہ اور ان کے ایک کلاس فیلو ہی کھیلتے تھے انھیں معلوم نہیں تھا کہ کوئٹہ میں اس کھیل کے دوسرے کھلاڑی بھی موجود ہیں۔
ان کے مطابق گذشتہ دنوں جب کوئٹہ میں ایک ٹورنامنٹ کا انعقاد ہوا تو انھیں معلوم ہوا کہ کوئٹہ میں شطرنج کے مایہ ناز کھلاڑی بھی موجود ہیں اور یہاں اس کے کلب بھی موجود ہیں۔
گورنمنٹ کامرس کالج کے ریٹائرڈ پرنسپل حضرت علی بھی شطرنج کے کھلاڑی ہیں اور 1974 سے کھیل رہے ہیں ان کا دعویٰ ہے کہ کوئٹہ میں شطرنج ایسوسی ایشن کے بانی ممبران میں سے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حضرت علی سمجھتے ہیں کہ کوئٹہ میں کسی زمانے میں شطرنج کے بہت سارے کلب تھے اور یہاں اس کے شائقین بھی موجود تھے جبکہ مقابلے بھی باقاعدگی سے ہوتے تھے۔
ان کے مطابق ایک بار شہر میں بہت تیز بارش ہو رہی تھی اور مجھے کلب جانا تھا جس کے لیے ’میں نے بارش اور سردی کی بھی پروا نہیں کی اور میں نیچاری کلب بارش میں بھی چلا گیا تاکہ شطرنج کھیل سکوں۔‘
حضرت علی کے بقول ان کی جوانی کے زمانے میں اس کھیل کے بہت سے کھلاڑی تھے اور 35 سال قبل کوئٹہ اسلامیہ سکول میں ایک مقابلہ ہوا جس میں 80 سے زائد کھلاڑیوں نے حصہ لیا۔
’یہ کھیل بہت خوبصورت اور کم خرچ ہے لیکن یہاں ایسوسی ایشن کے عہدیداروں کے اختلافات اور تقسیم در تقسیم نے اس کو زوال کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔‘
کوئٹہ کے قدیم علاقے اور ہدہ کلب شطرنج کلب کے ممبر ( کلب اب ختم ہوچکا ہے ) 1970 سے شطرنج کھیلنے والے محمد یوسف کے بال سفید ہوچکے ہیں لیکن وہ اب بھی کسی بھی کھلاڑی کی ساتھ مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
محمد یوسف نے انڈپیڈنٹ اردو کو بتایا کہ کوئٹہ کے قدیم علاقے ہدہ منو جان روڈ کے چوک پر ایک دکان میں شطرنج کا کلب قائم تھا۔
محمد یوسف کے مطابق ہدہ کلب ایک مشہور جگہ تھی جہاں شطرنج کے شوقین کھلاڑی روزانہ آکر کھیلتے تھے جس میں تقریباً 35 کھلاڑی اس وقت تھے جبکہ شہر سے بھی لوگ آتے اور ہر اتوار کو حالت یہ ہوتی تھی کہ وہاں جگہ نہیں ملتی تھی۔
محمد یوسف نے بتایا کہ ہدہ کلب 1995 میں ختم ہوا چونکہ وہ کرایہ کی جگہ تھی اور مالک نے دکان خالی کرالی اور کھلاڑی بھی گوشہ نشین ہوگئے، کچھ انتقال کر گئے۔ محمد یوسف کے بقول دس سال سے شطرنج کا کھیل شہر سے غائب ہو گیا اور لوگ نہیں جانتے کہ شطرنج بھی کوئی کھیل ہے۔
ان کے مطابق وہ 1970 سے شطرنج کھیل رہے ہیں اور ان کے متعدد شاگرد بھی رہ چکے ہیں لیکن جب کلبز ختم ہوئے تو اس کے کھیلنے والے بھی گم نام ہوتے گئے۔
دوسری جا نب شطرنج کے کھیل کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کرنے والے شعبہ طب سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ایوب سمجھتے ہیں کہ وہ بہت حد تک پرانے کھلاڑیوں کو یکجا کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
ڈاکٹر محمد ایوب یوں تو طب کے شعبے سے وابستہ ہیں لیکن وہ شطرنج کے کھلاڑی بھی ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شطرنج میں کوئٹہ کا ایک نام رہا ہے اور یہاں سے بہت سے باصلاحیت کھلاڑی موجود ہیں جو کچھ عرصے سے گوشہ نشین ہیں۔
ان کے مطابق یہ حقیقت ہے کہ 2014 میں شطرنج فیڈریشن کی دھڑے بندی اور پرانے کھلاڑیوں کی گوشہ نشینی نے اسے تباہی کے دھانے پر پہنچا دیا۔
ڈاکٹر ایوب کے مطابق اس کھیل کو بچانے کے لیے ’میں نے 2018 میں کلب کی بنیاد رکھی جس کی وجہ سے نوجوانوں کی دلچسپی اس کھیل میں بڑھ رہی ہے۔‘
ڈاکٹر ایوب کہتے ہیں کہ اس کھیل کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے وہ اپنی مدد آپ کے تحت پرانے کھلاڑیوں کو اکھٹا کر رہے ہیں اور انہوں نے تین ماہ کے دوران 14 مقابلوں کا انعقاد بھی کروایا ہے۔
کوئٹہ کے کھلاڑیوں کے مطابق پہلے وہ دیسی طریقے سے کھیلتے تھے بعد میں انہوں نے عالمی قوانین کے مطابق اس کھیل کو کھیلنا سیکھا۔
ڈاکٹر ایوب کے مطابق شطرنج بچوں کے ذہنی نشو و نما کے لیے انتہائی ضروری ہے دنیا کے بعض ممالک جیسے روس میں یہ نصاب میں شامل ہے۔
یاد رہے کہ دنیا میں شطرنج ایک مقبول کھیل ہے اور سب سے زیادہ اس پر لکھا گیا ہے، یہ بادشاہوں کا کھیل بھی کہا جاتا ہے۔
ڈاکٹر ایوب کے مطابق ہمارے ہاں شطرنج کا یہ حال ہے کہ گذشتہ سال پاکستان کی سطح پر پانچ کھلاڑی بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کے لیے اپنے خرچے پر جا رہے تھے ان کا نام ای سی ایل میں ڈال کر روک دیا گیا۔
شطرنج کے کلبز کے ذمہ داران کے مطابق شطرنج فیڈریشن مرکزی اور صوبائی سطح پر تقسیم کا شکار ہے مرکز میں اب ایک ہوگئی ہے لیکن بلوچستان میں اب دو سے تین ایسوسی ایشن قائم ہیں۔
مایوسی کے شکار شطرنج کے کھلاڑی مقابلوں کے انعقاد اور نوجوانوں کے اس کھیل میں دلچسپی سے خوش ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو یہاں دوبارہ شطرنج کا کھیل زندہ ہوسکے گا۔