حقوق انسانی کا عالمی دن کل ہی تو گزرا ہے۔ دسمبر ویسے ہی ہم پاکستانیوں کے لیے کڑا مہینہ ثابت ہوا ہے۔ گذشتہ ایک برس میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیاں بھلے ختم نہیں ہوئیں لیکن بہت سے معاملات جن پر پہلے بات کرتے ہوئے نہ صرف پَر جل جایا کرتے تھے اب وہ حساس سمجھی جانے والی عدالتوں کے رحم و کرم پر ہیں۔
پانچ سال قبل پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملے میں جان دینے والے 15 سالہ اسفند کے والدین اس امید پر جی رہے ہیں کہ جوڈیشل کمیشن کب اپنی سفارشات مکمل کرتا ہے اور بچوں کے والدین کب یہ جان پائیں گے کہ سانحہ آرمی پبلک سکول کی وجہ سکیورٹی کی ناکامی تھی یا کچھ اور۔
اسفند کے والد اجون خان کہتے ہیں کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ سانحہ آرمی پبلک سکول کی رپورٹ ماضی کے سانحات کی طرح خفیہ نہ رکھی جائے۔
وہ کہتے ہیں کہ اس ضمن میں انہیں ہائی کورٹ کے جسٹس ابراہیم خان نے یقین دلایا ہے کہ وہ اس رپورٹ کی نقل والدین کو بھی دیں گے۔ توقع ہے کہ سانحہ آرمی پبلک سکول جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ اس ماہ کے آخری ہفتے تک مکمل ہو جائے گی۔
نقیب اللہ محسود کے والد محمد خان انصاف کی حسرت لیے اس جہاں سے چلے گئے کہ عدالت بھلے ان کے بیٹے کے قاتل راؤ انوار کو سزا بعد میں سنا دے پر کم از کم اس کو دی گئی ضمانت ہی واپس لے لے، پر راؤ انوار کا پاسپورٹ ابھی عدالت کے پاس ہے۔ اب اس مقدمے کی پیروی نقیب اللہ کا چھوٹا بھائی کرے گا۔
کراچی کے آرٹ میلے میں گذشتہ ماہ راؤ انوار کے جرائم پر مبنی آرٹ پروڈکشن ’کلنگ فیلڈز آف کراچی‘ کو جس طرح سے تباہ کرنے کی کوشش کی گئی اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ راؤ انوار اب بھی کتنا طاقت ور ہے۔
ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی سربراہ آمنہ جنجوعہ کے 15 سال قبل گم ہونے والے شوہر تو آج تک نہ مل پائے مگر وہ اس عرصے کے دوران جبری گمشدگیوں کے متاثرین کی آواز بن کر ابھری ہیں۔ گذشتہ چند ماہ میں 20 سے زائد گمشدہ افراد واپس آئے جن میں بلوچستان کے علاقے آواران سے اٹھائی گئی چار خواتین بھی شامل ہیں۔ چار گمشدہ افراد کی موت کی حکام نے تصدیق کی ہے، گو ابھی بھی 2800 سے زائد افراد لاپتہ ہیں۔
ریاست کی جانب سے شہریوں پر غداری کے مقدمے اب بھی درج ہو رہے ہیں مگر عدالتیں ان مقدمات میں ضمانتیں بھی دے رہی ہیں جو حالیہ برسوں میں نہیں دیکھا گیا۔ ان مقدمات کا مقصد فقط اختلاف رائے کی آزادی کو کچلنا تھا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بھی اس ضمن میں کچھ سبق سیکھا ہے۔
طلبہ نے پہلی بار تعلیمی اداروں میں استحصال کے خلاف موثر احتجاج کیا اور کم از کم حکومتوں کی توجہ اس جانب مبذول کرائی گئی۔ سندھ حکومت نے طلبہ یونین بحال کرنے کی منظوری دے دی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رہی بات میڈیا پر قدغنوں کی تو وہ مالکان کی طرف سے بھی اتنی ہی زیادہ ہو گئی ہیں جتنی نامعلوم افراد کی جانب سے تھیں۔ خوش قسمتی ہے کہ ابھی تک مقدمات درج ہونے شروع نہیں ہوئے۔
خیبرپختونخوا میں مبینہ دہشت گردوں لیے قائم کیے گئے حراستی مراکز کا معاملہ بھی سپریم کورٹ تک پہنچ چکا ہے۔ سماعت جاری ہے اور حکومت کو ٹف ٹائم دیا جا رہا ہے۔
نوجوان سیاست دان اور سابق رکن قومی اسمبلی علی رضا عابدی کے قتل کو بھی ایک برس ہونے والا ہے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ اس قتل کے چاروں ملزمان پکڑے گئے ہیں۔ تاہم علی رضا عابدی کے والد اخلاق حسین کا کہنا ہے کہ پولیس اس قتل کے محرکات اور اس سیاسی سازش کو بےنقاب کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے جس کا نشانہ ان کا بیٹا بنا۔ ان کے مطابق گرفتار ہونے والے چاروں ملزمان کرائے کے قاتل ہیں اور پولیس ان کی درخواست پر کارروائی سے گریزاں ہے کہ اس قتل میں کچھ اور لوگ بھی ملوث ہیں۔
تو بات یہیں پر ختم کرتا ہوں کہ بھلے حقوق انسانی کے معاملے میں ہمارا ریکارڈ بے شک برا ہے مگر ان خلاف ورزیوں کے خلاف موثر احتجاج بھی ہو رہا ہے جس کے نتائج بھی نظر آ رہے ہیں۔