افغانستان میں ہر مہینے تقریباً 100 افراد بارودی سرنگوں کا نشانہ بن کر ہلاک ہو جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود جب گل اندام نے بارودی سرنگیں ہٹانے کے لیے مدد کرنے کی ہامی بھری تو گلی میں گزرتے وقت مرد ان پر تضحیک آمیز آوازیں کستے تھے۔
گل اندام کہتی ہیں: ’شروع میں مجھے بہت مسائل کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ جب ہم بامیان بارودی سرنگوں کو ہٹانے کے لیے مخصوص لباس پہن کر چلتی تھیں۔‘ وہ اقوام متحدہ کے فنڈز سے باردوی سرنگیں ہٹانے کے لیے تشکیل پانے والی 16 رکنی ٹیم یو این مائن ایکشن سروس (یو این ایم اے ایس) کا حصہ ہیں۔
ان کے اہل خانہ بھی ان کی ملازمت کے ایک خاتون کے لیے ’بہت خطرناک‘ ہونے کی وجہ سے پریشان رہتے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رینکنگ کے مطابق افغانستان کو خواتین کے لیے دنیا بھر میں سب سے خطرناک ملک قرار دیا گیا ہے۔ حال ہی میں پارلیمان کی مشیر مینا مینگل کی متحرک شخصیت کے باعث ان کے قتل کے بعد گل اندام اس خطرے سے اچھی طرح آشنا ہیں جس کا انہیں روزانہ کی بنیاد پر سامنا ہوتا ہے۔
لیکن ان خطرات کے باوجود گل اندام جیسی خواتین حال ہی میں بارودی سرنگوں کے خلاف مہم میں سب سے آگے رہی ہیں۔ رواں سال اکتوبر میں بامیان افغانستان کا وہ پہلا صوبہ تھا جسے مکمل طور پر تمام بارودی سرنگوں سے صاف قرار دیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ کامیابی افغانستان کی پہلی مخلوط ڈی مائننگ ٹیم نے حاصل کی ہے۔ اس ٹیم کی زیادہ تر ارکان خواتین ہیں۔
افغانستان میں بارودی سرنگوں کو ہٹانے کا کام 1989 سے جاری ہے۔ اب تک ملک بھر سے ایک کروڑ 80 لاکھ بارودی سرنگیں اور اَن پھٹے بم ہٹائے جا چکے ہیں۔ یہ بارودی مواد زیادہ تر افغان سوویت جنگ، جو 1979 سے 1989 تک جاری رہی، کے دوران فوجی اڈوں اور رسد کو محفوظ بنانے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔
گذشتہ برس 30 سال سے جاری اس مہم میں اب خواتین نے بھی حصہ لینا شروع کر دیا۔
جب 1996 میں طالبان اقتدار میں آئے تو انہوں نے خواتین پر کئی قسم کی پابندیاں عائد کر دیں، جن کے تحت خواتین کو نوکری کرنے اور تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں تھی۔
آج کے افغانستان میں طالبان کے پاس ان قوانین کو لاگو کرنے کی طاقت نہیں ہے، لیکن وہ افغان خواتین جو کام کرتی ہیں انہیں ابھی بھی قدامت پسند گروہوں اور اپنے خاندان کے افراد کی جانب سے انتقامی حملوں کا سامنا رہتا ہے۔
کابل سے 250 کلومیٹر دور واقع بامیان کا علاقہ شیعہ ہزارہ اقلیت کا ثقافتی مرکز ہے۔ یہاں بامیان کے بدھا کے نام سے مشہور مجسمہ بھی موجود تھا جسے طالبان حکومت نے بت پرستی کے خلاف اپنی مہم میں 2001 میں بارود سے اڑا دیا تھا۔
گل اندام کہتی ہیں: ’جب میں بارود ہٹانے کے لیے کام کرتی ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے جیسے میں ایک فوجی ہوں جو چھپے ہوئے دشمنوں یعنی بارودی سرنگوں سے لڑ رہی ہوں۔‘
یہ کام بہت سست رفتار اور خطرناک ہے۔ دس افراد کی ٹیم کو ہزار مربع میٹر یعنی ایک فٹ بال گراؤنڈ جتنا علاقہ صاف کرنے میں ایک مہینہ تک لگ سکتا ہے۔
ٹیم بارودی سرنگوں کو میٹل ڈی ٹیکٹرز کی مدد سے تلاش کرتی ہے۔ بارودی سرنگ کی اقسام کو جانچنے کے لیے ٹیم کے سربراہ کو بلایا جاتا ہے، جس کے بعد اس بارودی سرنگ کو ایک کنٹرولڈ دھماکے کے ذریعے اڑا دیا جاتا ہے یا اس کی قسم اور عمر کو مدنظر رکھتے ہوئے وہاں سے ہٹا کر ناکارہ کر دیا جاتا ہے۔
بامیان میں موجود بارودی سرنگوں کا آخری علاقہ صاف کرنے کے لیے ٹیم کو دو گھنٹے پیدل چل کر اس مقام تک پہنچنا ہوتا تھا۔ ٹیم صبح چھ بجے مشکل پہاڑی علاقے سے اس علاقے کی جانب روانہ ہوتی تھی۔ صرف ایک غلط قدم آپ کے اعضا کو نقصان پہنچا سکتا ہے یا اس سے بھی زیادہ برا ہو سکتا ہے۔
گل اندام کا کہنا ہے کہ ’میں نے اپنے خاندان کو یہ ثابت کیا ہے کہ اگر مرد مشکل صورت حال کا سامنا کر سکتے ہیں تو خواتین بھی کر سکتی ہیں۔‘
جب زمین صاف کی جاتی ہے تو نہ صرف زندگیاں بچائی جاتی ہیں بلکہ افغان اس زمین کو زراعت کے لیے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔
گل اندام کے مطابق: ’آج بامیان کے رہائشی ہمارے کام کے بارے میں زیادہ آگاہ ہیں اور اس کی تعریف کرتے ہیں اور اب گلیوں میں ہراساں کیے جانے کے واقعات بھی کم ہو چکے ہیں۔‘
ایک ایسا ملک جہاں نوکری ملنا مشکل ہو، وہاں خواتین کے لیے بارودی سرنگیں ہٹانے کی ملازمت ایک قابلِ قدر موقع ہے۔
بامیان میں رہنے والی ایک خاتون مملکت کا کہنا ہے کہ ’ٹیم میں شامل ہونے کی میری سب سے بڑی وجہ مالی خودمختاری تھی۔‘ نو سال پہلے نشے کی عادت کی وجہ سے شوہر سے طلاق کے بعد مملکت اپنے والدین کے گھر واپس آچکی تھیں لیکن انہیں اپنی بیٹی کی پرورش کے لیے پیسوں کی ضرورت تھی۔
انہوں نے کہا: ’میں خوش ہوں کہ بارودی سرنگیں ہٹانے کے کام نے میری مالی مشکلات حل کر دی ہیں اور میں اپنے لوگوں کی حفاظت میں کردار ادا کر سکتی ہوں۔‘
بارودی سرنگیں ہٹانے والی ٹیم کی ایک اور خاتون رکن فضا فیضائی نے اپنی تنخواہ اپنے ناخواندہ شوہر کو سکول واپس بھیجنے اور تعلیم مکمل کرنے کے لیے استعمال کی ہے۔
ماکیز ناصر احمد، جو کہ یو این ایم اے ایس کی قانونی افسر ہیں، کا کہنا ہے کہ افغان سوویت جنگ کی زیادہ تر سرنگیں صاف کر دی گئی ہیں لیکن حالیہ جنگوں میں استعمال ہونے والے اَن پھٹے بموں کو ہٹانا ایک بڑا چیلنج ہے۔
ماکیز 1990کی دہائی میں ایک بچے تھے اور وہ بدامنی کے باعث افغانستان سے چلے گئے تھے لیکن وہ 2018 میں یو این ایم اے ایس کے لیے کام کرنے واپس آئے۔
ان کا کہنا ہے: ’یہ بات بہت عام ہے کہ تاریخ افغان خواتین پر کبھی بھی مہربان نہیں رہی۔ خواتین ڈی مائنرز کے ساتھ کام کرنا خاص طور پر جب ان کا کام اس ملک میں رائج کئی مفروضوں کو ٹکر دیتا ہے ایک بہت عمدہ تجربہ ہے۔ مجھے یقین ہے یہ باقی افغان خواتین کو حوصلہ دے گا اور مردوں کو ہماری خواتین کی طاقت سے آگاہ کرے گا۔‘
© The Independent