اپنی موت سے چند لمحے قبل مینا منگل اپنے والدین کو ایک مقامی دکاندار کا ادھار واپس کرنے کا کہہ کر زور سے دروازہ بند کرکے نکلیں۔ کچھ ہی دیر بعد ان کے والدین کے گھر سے چند قدم کے فاصلے پر دو حملہ آوروں نے انہیں گولیاں مار کے ہلاک کر دیا۔ وہ ایک مشہور صحافی اور افغان پارلیمانی امور کی مشیر تھیں۔
مینا کی ماں انیسہ منگل نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا: ’مینا اپنے کام اور اپنے گھر کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں کبھی نہیں بھولتی تھیں۔ مینا نے بہت محنت سے اپنا مقام بنایا تھا۔ میری بیٹی نوکری چھوڑ کے گھر بیٹھنے پر راضی نہیں تھی۔‘
انیسہ کابل کے مشرقی علاقے میں ایک دو منزلہ گھر میں اپنے خاوند، چار بیٹیوں، ایک بیٹے اور پوتے پوتیوں کے ساتھ رہائش پذیر ہیں۔
پولیس نے اس واردات کے بعد تاحال کسی کو گرفتار نہیں کیا لیکن پولیس کے مطابق مینا کے خاندان کی جانب سے ان کے سابق خاوند سمیت چار افراد کے خلاف مقدمہ درج کرا دیا گیا ہے۔
کابل پولیس کے ترجمان فردوس فرامرز کے مطابق مطلوبہ چاروں افراد مفرور ہیں اور پولیس کی جانب سے ان کو گرفتار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
مینا کی ماں کو اس بات کا یقین ہے کہ مینا منگل کی موت کی وجہ ان کی اپنے کام اور گھر سے گہری وابستگی تھی۔ ان کی جانب سے مینا کے سابق خاوند کو اس قتل کا ذمہ دار قرار دیا گیا کیونکہ مینا اپنی نوکری اور صحافت چھوڑ کر گھر بیٹھنے پر راضی نہیں تھیں۔ روئٹرز کی جانب سے مینا کے سابقہ خاوند سے رابطہ کرنے کی کوشش کامیاب نہ ہو سکی جبکہ ان کے خاندان والوں کو کی جانے والی فون کالز کا کوئی جواب موصول نہ ہوا۔
مینا پر ہونے والے اس سفاکانہ حملے پر سخت ردعمل سامنے آرہا ہے۔ امریکی حکام اور کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کی جانب سے اس قتل کی مذمت کی گئی ہے۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کے مطابق افغان خواتین گھر اور باہر دونوں جگہ صنفی تعصب اور تشدد کا سامنا کر رہی ہیں۔ 2001 میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد خواتین کے حقوق کے حوالے سے سرگرم خواتین کا کہنا ہے کہ انہیں اب بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ قدامت پسند رشتہ داروں اور شدت پسند مذہبی گروہوں کی جانب سے بھی خواتین کی پیشہ ورانہ اور معاشی آزادی کی مخالفت کی جاتی ہے۔
اس ماہ کے اوائل میں طالبان کی جانب سے امریکی امدادی گروپ کاؤنٹرپارٹ انٹرنیشنل کے صدر دفتر پر حملہ کیا گیا جس کی وجہ وہاں ’خواتین اور مردوں کا مخلوط ماحول‘ اور مغربی اقدار کا فروغ قرار دیا گیا۔ سات گھنٹے تک جاری رہنے والے اس محاصرے میں نو افراد ہلاک جبکہ 20 زخمی ہوئے تھے۔
کاؤنٹرپارٹ میں ملازمت کرنے والی ایک افغان خاتون نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا: ’طالبان مردوں کے ساتھ کام کرنے والی خواتین کو قتل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر میں ماری گئی تو میرے ماں باپ اور بہن بھائیوں کا پیٹ کون بھرے گا؟ اگر میں گھر بیٹھ جاتی ہوں تو کیا طالبان میرے اخراجات ادا کریں گے؟‘
طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق کاؤنٹرپارٹ پر حملے کی وجہ اس کا امریکی امداد سے چلنا ہے۔ ان کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ افغانستان میں مردوں اور خواتین کے مخلوط ماحول کو روکا جانا چاہیے۔
آزادی کی قمیت
طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد امریکی حمایت یافتہ حکومتوں کے دور میں خواتین کے لیے حالات کافی بہتر ہوئے ہیں بالخصوص کابل شہر میں جہاں ہزاروں خواتین اب نوکری کرنے کے لیے گھروں سے نکلتی ہیں لیکن یہ اپنی حفاظت کو خطرے میں ڈالے بغیر ممکن نہیں۔
اپریل تک حکومت کے لیے کام کرنے والی ہزاروں خواتین اپنے بچوں کو اپنے ساتھ کام پر لانے میں خوشی محسوس کرتی تھیں۔ ہر سرکاری عمارت کے ساتھ موجود ڈے کیئر سینٹر بچوں کو قریب اور محفوظ رکھنا یقینی بناتا ہے۔ ان سینٹرز کا قیام 1945 میں خواتین میں کام کرنے کے جذبے کو فروغ دینے کے لیے عمل میں لایا گیا تھا، لیکن ان سینٹرز کو 1996 سے 2001 کے طالبان دور میں بند کر دیا گیا تھا۔ طالبان دور میں خواتین کو کام کرنے اور سکول جانے کی اجازت نہیں تھی۔ اس کے علاوہ برقع اور محرم کے بغیر گھر سے نکلنے پر بھی پابندی تھی۔
حکومت کی جانب سے اب 370 دارالاطفال کام کر رہے ہیں جہاں تین سے پانچ سال کی عمر تک کے 17 ہزار بچوں کو دودھ، کھانا، کھلونے اور جھولے فراہم کیے جاتے ہیں۔ ایک وزارت میں کام کرنے والی ایچ آر عہدے دار سعدیہ صادقی کہتی ہیں: ’دفتر کے ساتھ ہی ڈے کیئر سینٹر ہونا ایک نعمت سے کم نہیں۔ میں ہر دو گھنٹے بعد بغیر کسی پریشانی کے اپنے شیر خوار بچے کو غذا دے سکتی ہوں اور واپس دفتر آسکتی ہوں۔‘
لیکن اپریل سے سکیورٹی معاملات بدل چکے ہیں۔ داعش کے ایک خود کش حملے کے بعد دہشت گردوں کی جانب سے وسطی کابل میں وزارت مواصلات کی عمارت پر حملہ کیا گیا۔ تقریباً 12 لوگ ہلاک ہوئے جبکہ پولیس کی جانب سے کمپلیکس سے 100 بچوں سمیت دو ہزار آٹھ سو افراد کو نکال کر محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا۔
ہر گولی کی آواز کے ساتھ بچوں، اساتذہ اور ماؤں کی دل دہلا دینے والی تصاویر گھنٹوں تک ٹی وی پر دیکھی جاتی رہیں۔ مائیں ڈے کیئر میں موجود اپنے بچوں کی حفاظت کے حوالے سے پریشان تھیں۔ وزارت مواصلات میں ملازمت کرنے والی مینا احمدی کہتی ہیں کہ ان کے ساتھ کام کرنے والی کئی خواتین اس حملے کے بعد سے اپنے بچوں کو ڈے کیئر میں ساتھ نہیں لاتیں۔ ان میں سے کچھ نوکری سے مستعفی ہو چکی ہیں۔ میں بھی دفتر آنے میں خوف محسوس کرتی ہوں۔ میں اپنے ہلاک ہونے والے دوستوں کو یاد کرکے افسردہ ہو جاتی ہوں۔ اس حملے نے میرے بچے کو بھی متاثر کیا ہے۔