(دلیپ کمار کی 97ویں سالگرہ پر خصوصی تحریر)
15 اکتوبر 1976 کو دلیپ کمار کی فلم بیراگ ریلیز ہوئی جس میں یوسف خان نے تین کردار کیلاش (باپ) بھولے ناتھ (بیٹا) اور سنجے (بیٹا) کا کردار ادا کیا۔
زندگی کی نصف صدی پوری کرنے کے بعد دلیپ کمار کو فلم ’گوپی‘ میں شاید صرف باپ کا کردار ادا کرنا چاہیے تھا۔ کلیان جی آنند جی کی مدھر موسیقی بھی فلم کو باکس آفس پہ ڈوبنے سے نہ بچا سکی اور اس طرح 1944 میں ’جوار بھاٹا‘ کی ناکامی سے شروع ہونے والا سفر 32 سال بعد بیراگ کی ناکامی پہ ختم ہوتا نظر آیا۔
ایسا نہیں کہ دلیپ صاحب کی یہ یہلی فلم تھی جو باکس آفس پہ پٹی ہو۔ اس سے پہلے بی آر چوپڑا کی فلم ’داستان‘ اور نامور بنگالی ہدایت کار تپان سنہا کی فلم ’سگینہ‘ بھی کوئی چمتکار دکھانے میں ناکام رہی تھیں۔
داستان دراصل بی آر چوپڑا کی 1951 میں آنے والی فلم ’افسانہ‘ کا ری میک تھا۔ اس وقت بی آر نے دلیپ کمار کو آفر کی جو دلیپ نے اس لیے مسترد کر دی کہ وہ ابتدائی مرحلے میں خود کو دہرے کردار کے لیے موزوں نہ سمجھتا تھا۔ اس طرح اشوک کمار کی انٹری ہوئی۔ بی آر چوپڑا نے اس وقت ہی کہہ دیا تھا کہ زندگی میں کبھی دلیپ کمار کے ساتھ میں یہ فلم ضرور بناؤں گا۔ داستان اسی خواب کی تعبیر تھی۔ لیکن 20 سال بعد جو افسانہ داستان کی صورت میں سامنے آیا لوگ اسے سننے کو تیار نہ تھے۔ بی آر چوپڑا نے بعد میں تسلیم کیا کہ جو موضوع 1951 میں اچھوتا اور تازہ تھا اب بے جان ہو چکا تھا۔
دلیپ کمار نے ناکامیوں کی کی فہرست طویل کرنے کے بجائے سینما سے کنارہ کشی کو مناسب سمجھا اور منچ چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس دوران میں دلیپ کمار نے اس حقیقت کو قبول کر لیا کہ بڑھتی ہوئی عمر اب مختلف کرداروں کا تقاضا کرتی ہے۔ بالی وڈ کی ایک مشکل یہ ہے کہ مرکزی کردار کے ساتھ عام طور پہ باپ، چچا کے بہت ہی روایتی اور بے جان کردار نظر آتے ہیں۔ ایسے میں کسی جاندار کریکٹر رول کی تلاش کا لمحہ طویل ہوتا جا رہا تھا۔ دلیپ کمار نے اپنی اس خواہش کا اظہار کسی سے نہ کیا تھا ورنہ ان کے لیے کرداروں کی کیا کمی ہوتی۔
ایک دن دلیپ کمار کے پاس منوج کمار ایک سکرپٹ لے کر آیا۔ وہ دراصل ہری کشن گوسوامی تھا جو تین دہائیاں قبل 1949 میں فلم ’شبنم‘ دیکھنے گیا اور جب فلم دیکھ کر باہر نکلا تو ہری کشن سے منوج کمار بن چکا تھا۔ شبنم میں دلیپ کمار کے کردار کا نام منوج کمار ہی تھا۔ دلیپ کمار تو گویا اس انتظار میں بیٹھے تھے۔ منوج کمار کے مطابق انہیں سکرپٹ سنانے میں پانچ منٹ لگے اور ایک لمحے میں دلیپ کمار نے ہاں کر دی۔
19ویں صدی میں برطانوی سامراج کے خلاف آزادی کی جنگ لڑتا ہوا سنگا (دلیپ کمار) اپنے کردار میں خوب جچا۔ یہ دلیپ کمار کے نئے جنم کی پہلی تصویر تھی لیکن اس میں ایک اشارہ یہ بھی تھا کہ اب میں ایسے عمدہ کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہوں۔ اصل معرکہ اس کے بعد تھا۔
’کرانتی‘ فلم کی کہانی اور مکالمے سلیم جاوید نے لکھے تھے۔ اس وقت لکھنے والوں میں سب سے عمدہ جوڑی۔ ایک مراٹھی ڈرامے سے متاثر اس فلم کو سلیم جاوید نے بہت اچھی طرح لکھا۔ اس کے پروڈیوسر تھے مشیر ریاض، وہی جو پانچ سال پہلے دلیپ کمار کی فلم ’بیراگ‘ کے پروڈیوسر تھے۔ رمیش سپی کی ہدایت کاری میں بننے والی یہ فلم تھی ’شکتی،‘ جہاں دلیپ کمار اور امیتابھ بچن براہ راست مدمقابل تھے۔
فلم میں امیتابھ بچن (وجے) ایک ایسے نوجوان کا کردار ادا کرتا ہے جو قانون، ضابطے اور سماج کی بنائی بندشوں سے بغاوت کی علامت ہے۔ اس سے بالکل متضاد کردار دلیپ کمار (اشونی) کا ہے جو پولیس آفیسر ہے۔ جو قانون کو نہ صرف مانتا ہے بلکہ کسی صورت اس پہ سمجھوتے کو تیار ہی نہیں ہوتا۔
فلم میں باپ بیٹا آمنے سامنے نہیں ہوتے بلکہ دو نسلیں مدمقابل ہوتی ہیں۔ ایک نسل جسے روایت اور اخلاق و کردار پہ اصرار ہے اور دوسری طرف ناراض اور بغاوت کی علم بردار نسل جس کی ناراضی سب کچھ پاش پاش کرنا چاہتی ہے۔ وجے ایک جگہ کہتا ہے ’نفرت ہے مجھے دنیا کے ہر اس قانون سے جسے میرا باپ مانتا ہے۔ آج سے میں اپنا قانون خود بناؤں گا۔‘
اس فلم کے مختصر وقت کے لیے اشوک کمار کی موجودگی سے دو نسلوں کی کہانی بڑھ کر تیسری نسل تک پھیل جاتی ہے۔ اپنی اپنی نسل کے تین نمائندہ ہیرو سمے کی بدلتی ہوئی بساط پہ اپنی چالیں چلنے میں مگن۔ ایک انسان کا دوسرے انسان سے اور ایک نسل کا دوسری نسل سے رشتہ اپنی بہت سے رنگوں سمیت اس فلم میں نمایاں ہے۔
فلم میں جب جب اشونی اور وجے آمنے سامنے ہوئے جذبات نگاری پوری جزویات کے ساتھ نمایاں ہو کے سامنے آئی۔ چہرے کے تاثرات، آنکھوں کی جلتی بجھتی روشنی اور آواز کا اتار چڑھاؤ پردۂ سیمیں پہ نئی تاریخ رقم کرتا ہے۔
امیتابھ اور دلیپ کمار صرف فلم میں ہی نہیں فلم فئیر ایوارڈز کے میلے میں بھی مدمقابل تھے۔ امیتابھ بچن کے عروج کا زمانہ تھا اور اس بار تین فلموں (بے مثال، نمک حلال، شکتی) میں بہترین اداکار کے طور پہ نامزد ہوا۔ گلزار کی فلم ’انگور‘ میں ڈبل کردار ادا کرنے والے سنجیو کمار کے ساتھ ’بازار‘ کا سلیم یعنی نصیرالدین شاہ بھی مضبوط امیدوار تھا۔ اس بھیڑ میں بہترین اداکار کا فلم فیئر دلیپ کمار لے اڑے۔
دلیپ صاحب کا یہ آٹھواں اور بہترین اداکار کا آخری فلم فئیر ایوارڈ تھا۔ کم و بیش 30 سال پہلے فلم فیئر کی طرف سے اس کے اجرا کے بعد ابتدائی ایوارڈ ہی دلیپ کمار کو داغ میں شنکر کے کردار کے لیے دیا گیا۔ اس کے بعد 1956 سے 1958 تک مسلسل تین سال فلم ’آزاد،‘ ’دیوداس‘ اور ’نیا دور‘ کے لیے یہ ایوارڈ لے اڑے۔ 1961 میں ’کوہ نور،‘ 1965 میں ’لیڈر‘ اور 1968 میں ’رام اور شیام‘ پہ اس یہ ایوارڈ جیتنے والے دلیپ کمار فلم فیئر ایوارڈ کی فہرست میں آج بھی پہلے نمبر پہ ہیں۔
شکتی کے بعد دلیپ کمار نے بطور کریکٹر ایکٹر اپنا سفر جاری رکھا۔ ان فلموں میں ’مشعل،‘ ’دنیا،‘ ’کرما‘ اور ’سوداگر‘ قابل ذکر ہیں۔ یش چوپڑا اور سبھاش گھئی جیسے ہدایت کاروں کے ساتھ بنی یہ فلمیں کامیاب بھی ہوئیں لیکن شکتی میں جو تاریخ رقم ہوئی وہ نہ دہرائی جا سکی۔
تاریخ کب دہرائی جا سکتی ہے وقت کی آندھی ہر نقش کو مٹاتی چلی جاتی ہے ہاں اگر نقش دلیپ کمار کا ہو تو ہر آنے والی نسل کے ماتھے پہچمکنے لگتا ہے۔ دھرمیندر، منوج کمار، راجندر کمار، امیتابھ بچن اور اب شاہ رخ سے عامر خان تک کون ہے جو دلیپ کمار کی روشنی سے منور نہ ہوا۔
دلیپ کمار نے جب اداکاری شروع کی تو ان کے سامنے کوئی ماڈل نہ تھا۔ دلیپ صاحب نے بالی وڈ فلم انڈسٹری میں اداکاری کا فن متعارف کروایا اور پھر اس مقام تک لے گئے کہ جسے دوسرے دیکھ کے روشنی تو حاصل کرتے ہیں چھو نہیں سکتے۔