پاکستان میں تین دہائیوں سے پابندی کا شکار طلبہ یونینز کی بحالی کے لیے ملک بھر میں 29 نومبر کو طلبہ یکجہتی مارچ ہوا، جس کے بعد سب سے پہلے حکومتِ سندھ نے یونینز کو بحال کرنے کا اعلان کیا۔
حال ہی میں سندھ کابینہ نے طلبہ یونینز کی بحالی کے لیے بل بھی منظور کرلیا، جسے اسمبلی میں متعارف کروانےکے بعد قائمہ کمیٹی برائے قانون کو بھیجا جائے گا جہاں تمام فریقین سے مشاورت کے بعد اس بل کو پاس کیا جائے گا۔ تاہم سوال یہ ہے کہ کیا سندھ کے طالب علم اس بل سے مطمئن ہیں؟
سندھ کی تمام طلبہ تنظیموں کی الائنس ’سٹوڈنٹ ایکشن کمیٹی‘ کی نمائندہ زہابیہ خزیمہ نے انڈپینڈںٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’طلبہ یونین کی بحالی کے لیے بل تیار کرنے سے قبل سندھ کے مشیرِ قانون مرتضیٰ وہاب سے ہماری ملاقات ہوئی تھی، جس میں سندھ کی تمام طلبہ تنظیموں کے مطالبات جمع کروائے گئے تھے لیکن ان میں سے صرف دو ہی مطالبات بل میں شامل ہوئے جب کہ اہم ترین نکات نظر انداز کردیے گئے۔ ہماری نظر میں طلبہ یونین بحالی کا بل کھوکلا ہے۔‘
جب سندھ حکومت کے بل اور سٹوڈنٹ ایکشن کمیٹی کے مطالبات کا جائزہ لیا گیا تو یہ بات سامنے آئی کہ طلبہ تنظیموں کے صرف دو ہی مطالبات بل میں شامل ہیں۔ پہلا یہ کہ طلبہ یونینز سرکاری اور نجی دونوں شعبوں کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بحال کی جائیں گی اور دوسرا طلبہ یونینز میں منتخب ارکان کی تعداد سات تا 11 کے درمیان ہونی چاہیے۔
سٹوڈنٹ ایکشن کمیٹی کے مطابق کابینہ سے مںظور شدہ بل میں، جو اسمبلی میں پاس ہونے کے بعد ’سندھ سٹوڈنٹ یونین ایکٹ 2019‘ کہلائے گا، طلبہ تنظیموں کے جن اہم نکات کو نظر انداز کیا گیا، وہ یہ ہیں:
1۔ یونین کے تمام ارکان کو فیصلہ سازی میں شامل کیا جانا چاہیے یا جگہ دی جانی چاہیے، یعنی سرکاری جامعات کی سنڈیکیٹ اور نجی جامعات کی انتظامی ڈھانچے میں یونین کی نمائندگی ہو۔
2۔ جنسی ہراسانی کی شکایات دور کرنے کے لیے ہر تعلیمی ادارے میں ایک کمیٹی لازمی بنائی جائے، جس میں غیر جانبدارانہ طور پر خواتین کو برابری کی نمائندگی حاصل ہو اور طلبہ یونین کی ایک خاتون رکن کو کمیٹی کا حصہ بنایا جائے۔
3۔ جامعات کے سالانہ بجٹ کی منظوری میں طلبہ یونین اور کونسل کے چیئرپرسن کی رضا مندی شامل ہو۔
4۔ تمام اعلیٰ تعلیمی اداروں یعنی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں یونینز کے سالانہ انتخابات کرانا لازمی قرار دیا جائے۔
5۔ ہر سیاسی تنظیم کے طلبہ ونگ کو طلبہ یونین کے انتخابات لڑنے کی اجازت ہونی چاہیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
زہابیہ نے سندھ کابینہ کے منظور شدہ بل کے حوالے سے مزید بتایا: ’یہاں طلبہ کو 18 سال کی عمر میں ووٹ ڈالنے کی اجازت تو ہے مگر وہ ریاستی و حکومتی امور سمیت سیاست اور معاشرے سے جڑے معاملات پر نہ تو بات کر سکتے ہیں اور نہ ہی ان میں اصلاحات تجویز کرسکتے ہیں۔ یہ لوگ طلبہ و طالبات کو ایک غیر سیاسی ذہن میں بدلنا چاہتے ہیں۔‘
’جب تک ہمارے تمام مطالبات پورے نہیں ہوتے، ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔‘
پاکستان میں طلبہ یونینز اور تنظیموں کی تاریخ
پاکستان کے تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینز پر پابندی کو 35 سال گزر چکے ہیں۔ 1983 میں طلبہ یونین کے آخری انتخابات ہوئے تھے جس کے بعد 1984 میں ان پر پابندی لگا دی گئی تھی۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں پابندی سے پہلے جامعات اور کالجوں میں طلبہ یونیز کی سرگرمیاں باقاعدہ سالانہ انتخابات کے ذریعے ہوتی تھیں۔ ان انتخابات میں حصہ لینے والی کچھ طلبہ تنظیموں نے پاکستانی سیاست میں بھی کردار ادا کیا۔
پاکستان کی سب سے پرانی ترقی پسند طلبہ تنظیموں میں سے ایک نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن (این ایس ایف) ہے جو کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان (سی پی پی) کے طلبہ ونگ کی حیثیت سے شروع ہوئی۔
اس تنظیم نے 1960 اور 1970 کی دہائی میں طلبہ یونین کے انتخابات میں انتخابی بالادستی کا مظاہرہ کیا۔ یہ تنظیم 1968 میں ایوب خان کی آمریت کے خلاف تحریک میں بھی سب سے آگے تھی۔ اندرونی ٹوٹ پھوٹ کے باعث یہ تنظیم دھڑے بندی کا شکار ہوگئی اور نتیجے میں ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن (ڈی ایس ایف) اور لبرل سٹوڈنٹس فیڈریشن (ایل ایس ایف) وجود میں آئیں۔
مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن (ایم ایس ایف) بھی 1960 کی دہائی میں مشہور طلبہ تنظیموں میں سے ایک تھی۔ جب پاکستان معرض وجود میں آیا، تو یہ واحد منظم طلبہ تنظیم تھی جو پاکستان مسلم لیگ کے طلبہ ونگ کے نام سے جانی جاتی تھی اور سابق وزیر اعظم نواز شریف بھی اس تنظیم کے رکن رہ چکے ہیں۔
اس تنظیم نے 1965 تک ایوب خان کی حمایت کی لیکن 1960 کی دہائی کے آخر میں یہ تنظیم بھی ایوب خان حکومت کے خلاف قومی طلبہ فیڈریشن (این ایس ایف) کے احتجاج میں شامل ہوگئی۔
پاکستان میں آمرانہ حکومت کے خلاف کھڑی ہونے والی طلبہ تنظیموں میں سے ایک پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن (پی ایس ایف) ہے جو پاکستان پیپلز پارٹی کے سٹوڈنٹ ونگ کے طور پر وجود میں آئی۔
اس تنظیم نے اندرون سندھ اور شمالی پنجاب میں طلبہ یونینز کے انتخابات میں کافی طاقت کا مظاہرہ کیا، بلکہ 1970 کی دہائی کے آخر میں اور پھر 1981 اور 1983 میں جمہوریت کی بحالی کے لیے چلنے والی تحریک کے دوران ضیاء الحق مخالف تحریک میں بھی قائدانہ کردارادا کیا۔
1970 طلبہ سیاست کی تاریخ کا سب سے جمہوری اور سنہرا دور قرار دیا جاتا ہے کیوں کہ حکومت نے طلبہ یونینز کی ترقی کے لیے ’1974 کا طلبہ یونین آرڈیننس‘ پاس کیا تھا۔ اس آرڈیننس نے جامعات میں سیاسی سرگرمیوں کو سراہا اور اس کی حوصلہ افزائی کی۔
اسی دور میں جماعتِ اسلامی کا سٹوڈنٹ ونگ اسلامی جمعیت طلبہ (آئی جے ٹی) بھی طاقت ور انتخابی قوت کی حیثیت سے ابھرا۔
اسلامی جمعیت طلبہ کے اثر و رسوخ کم کرنے کے لیے تین جماعتوں نے انتہائی کلیدی کردار ادا کیا، جن میں پنجاب میں بننے والی پروگریسو سٹوڈنٹس الائنس (پی ایس اے)، سندھ کی یونائیٹڈ سٹوڈنٹس موومنٹ (یو ایس ایف) اور آل پاکستان متحدہ طلبہ تنظیم (اے پی ایم ایس او) شامل ہیں۔
اے پی ایم ایس او وہ طلبہ تنظیم ہے جو 1984 میں سیاسی جماعت مہاجر قومی موومنٹ کی شکل میں ابھری، جس کا بعد میں نام متحدہ قومی موومنٹ پڑا۔ اس تنظیم کی تشکیل 1978 میں الطاف حسین اور عظیم احمد طارق نے یونیورسٹی آف کراچی میں کی تھی۔