ایک ایسے وقت میں جب پاکستان بھر میں طلبہ یونیز کی بحالی کے لیے احتجاج زوروں پر ہے، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر نے اپنی ایک ٹویٹ میں بتایا کہ ان کی حکومت نے طلبہ یونینز پر پابندی ایک سال پہلے ہی ختم کر دی تھی اور اب یونینز کے انتخابات کروانا یونیورسٹیوں اور کالجز کی انتظامیہ کا کام ہے۔
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی حکومت نے گذشتہ سال نومبر میں طلبہ یونینز پر کئی دہائیوں سے عائد پابندی ختم کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے سرکاری تعلیمی اداروں میں طلبہ کو مشروط یونین سازی کی اجازت دی تھی، جب کہ تعلیمی اداروں کو اس سلسلے میں ضابطہ اخلاق مرتب کرنے کی ہدایت کی گئی تھی تاکہ ان یونینز کے انتخابات کروائے جا سکیں۔ تاہم ایک سال کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی یہ ضابطہ اخلاق تیار نہ ہو سکنے کی وجہ سے پبلک سیکٹر کی پانچ یونیورسٹیوں اور درجنوں کالجوں میں انتخابات نہیں ہو سکے۔
گذشتہ روز راجہ فاروق حیدر کی جانب سے کی گئی مذکورہ ٹویٹ کے بعد جہاں کئی صارفین نے اس پر حیرت اور شکوک و شبہات کا اظہار کیا، وہیں کئی لوگوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ اگر یہ پابندی واقعی اٹھا دی گئی تھی تو اب تک یونینز کے انتخابات کیوں نہیں ہو سکے۔
Govt AJK has lifted restriction on students union last yr and now is up to administration of universities professional colleges and other colleges to hold union elections
— Raja Muhammad Farooq Haider Khan (@farooq_pm) November 29, 2019
اس سوال کے جواب میں وزیر اعظم کے ترجمان راجہ وسیم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حکومت کی جانب سے کوئی رکاوٹ نہیں ہے، تاہم تعلیمی اداروں نے ضابطہ اخلاق تیار نہیں کیا جس کی وجہ سے ابھی تک الیکشن نہیں ہو سکے۔
راجہ وسیم کا کہنا تھا: ’حکومت طلبہ کی مثبت سیاسی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ کئی دہائیوں تک رہنے والی سے پابندی سے سیاسی قیادت کا ایک خلا پیدا ہوا ہے اور اس کی جگہ موروثی سیاست نے لے لی ہے۔ یونین کی بحالی سے نوجوان قیادت کو ابھرنے کا موقع ملے گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گذشتہ سال جاری ہونے والے سرکاری نوٹیفکیشن میں طلبہ یونینز کی سرگرمیوں کو تعلیمی اداروں تک محدود رکھنے اور انتخابات میں حصہ لینے کو آخری پاس کردہ امتحان میں کم از کم 70 فیصد نمبر حاصل کرنے سے مشروط کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سیاسی، مذہبی اور لسانی جماعتوں کی یونین کی مداخلت کی سختی سے ممانعت کا بھی ذکر ہے، تاہم اس نوٹیفکیشن میں یہ تذکرہ نہیں کہ طلبہ یونینز کے انتخابات کب ہوں گے۔
حیران کن طور پر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں پبلک سیکٹر کی پانچوں یونیورسٹیوں کے علاوہ یہ نوٹیفکیشن جاری کرنے والے محکمہ ہائر ایجوکیشن کے عہدیداران نے اس نوٹیفکیشن اور اس پر کسی قسم کی پیش رفت کے بارے میں بھی لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔