بنیادی طور پر نثر نگار محمد حسن معراج دو کتابوں کے مصنف ہیں، مختصر فلمیں لکھ چکے ہیں، دستاویزی فلمیں بنا چکے ہیں اور ان کے لکھے ڈرامے سٹیج بھی کیے جا چکے ہیں۔
تاہم جب خود ان سے پوچھا جائے تو وہ خود کو داستان گو کہلوانا پسند کرتے ہیں۔
پاکستان فوج میں گزرے 15 برس کے دوران انہیں ملک کے دور دراز علاقوں تک رسائی کا اتفاق ہوا۔ وہاں رہنے والوں کے لہجوں، وہاں کی گھاس کی خوشبو، پہاڑوں کی بلندی، تپتی گرمیاں، ان سب کی جھلک ان کی لکھی تصویروں میں واضح نظر آتی ہے۔
جی، اگر آپ پڑھنا جانتے ہیں تو حسن معراج جو لکھتے ہیں وہ تصویر ہوتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ڈان ‘اور ’ہم سب‘ میں لکھنے کے بعد حسن معراج کی پہلی کتاب ’ریل کی سیٹی‘ تھی۔ اس کے بعد انہوں نے ایک کتاب انگریزی میں بھی لکھی لیکن جو مزہ اردو والوں کو ریل کی سیٹی میں آیا، انگریزی والوں کو وہ سب ملا یا نہیں، اس کے لیے کسی خاندانی انگریز سے رابطہ کرنا پڑے گا۔
ریل کی سیٹی پر حسن معراج کو اتنا فیڈ بیک ملا، اتنی تعریفیں ہوئیں، اس قدر لوگوں کی آنکھیں خود مجھے نم نظر آئیں کہ میں سوچنے لگا کہ استاد کتاب چھپوانے پہ اگر اس کا دس فیصد بھی ملتا ہے تو اپنی نیا پار ہے۔
اسی کتاب میں ایک باب ایسا تھا جس کوئی صاحب سندر داس چوپڑا تھے اور ان کا ایک محل تھا جو ڈنگہ میں ہے اور نام جس کا سندر محل ہے۔
پتہ لگا کہ ایک خاتون نے اس کتاب کے بعد حسن معراج سے رابطہ کیا اور انہیں بتایا کہ سندر داس کا دوسرا جنم بھی ہوا تھا۔ یہ کسی کتاب پر فیڈ بیک ملنے اور کہانی در کہانی در کہانی کی انتہا تھی۔
حسن جب اس مرتبہ لندن سے آئے تو ان سے پوچھا کہ بھئی آپ چنگے بھلے انسان ہیں، وہ دوسرے جنم والا کیا سین تھا؟ فکشن تھا یا حقیقت تھی؟ معلوم ہوا کہ اس حقیقت پر ایک کتاب بھی آ چکی ہے۔ تو بس وہ سارا قصہ اس ویڈیو میں دیکھیں اور جاتے جاتے ایک بوڑھے مہاجر ایشر داس اروڑا کی بات بھی سنتے جائیے گا جسے ہندوستان میں آج بھی اٹک سے قریب بیلے میں واقع پہاڑیوں کی یاد رُلا رُلا دیتی ہے۔ شالا کوئی پردیسی نہ تھیوے!