بھارت میں شہریت کے متنازع ترمیمی بل ’سٹیزن امینڈمنٹ ایکٹ‘ کے خلاف پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ مغربی بنگال تک پہنچ چکا ہے جبکہ امریکہ نے بھی غیر متوقع طور پر اس ترمیمی بل کی مذمت کی ہے۔
بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا کے مطابق دارالحکومت نئی دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ہزاروں طلبہ شہریت کے متنازع ترمیمی بل کے خلاف پہلے ہی سٹرکوں پر تھے جبکہ ہفتے کی رات تک پرتشدد مظاہروں کی آگ مغربی بنگال کے چار اضلاع تک پھیل گئی جہاں مشتعل مظاہرین نے کم از کم 17 بسوں، پانچ خالی ریل گاڑیوں، فائر برگیڈ اور پولیس کی گاڑیوں کو نظر آتش کر دیا جبکہ آدھا درجن ریلوے سٹیشنوں پر توڑ پھوڑ کی گئی۔
یہ مظاہرے مغربی بنگال کے مسلم اکثریتی اضلاع مرشد آباد، ہوڑہ، مالدہ اور شمالی 24 پرگناس میں جاری ہیں جہاں مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔
مظاہرین نے مغربی بنگال کے دارالحکومت کلکتہ میں شاہراروں کو بلاک کر دیا جبکہ ہزاروں مسافر ٹرینوں اور بسوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ریاست کی وزیراعلیٰ ممتا بینرجی نے عوام سے پرامن رہنے اور غیر جمہوری انداز کے مظاہروں سے باز رہنے کی اپیل کی ہے۔
رواں ہفتے جھڑپوں میں دو افراد کی ہلاکت کے بعد بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام کے گوہاٹی شہر میں بھی کرفیو نافذ کر دیا گیا تھا۔
ہنگاموں کے دوران دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ نے پانچ جنوری تک تعطیلات کا اعلان کیا اور طلبہ کی جانب سے گذشتہ چار روز سے جاری احتجاج کے باعث یونیورسٹی کی کشیدہ صورتحال کے پیش نظر تمام امتحانات منسوخ کردیے ہیں۔
دوسری جانب بھارت کے قریبی اتحادی ملک امریکہ نے بھی غیر روایتی اور غیر متوقع طور پر مودی حکومت کے متنازع اقدام کی مذمت کی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق شہریت کے متنازع قانون کی منظوری کے بعد امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ’امریکہ بھارت پر زور دیتا ہے کہ وہ اپنی آئینی اور جمہوری اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک کی مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے۔‘
مذہبی آزادی سے متعلق امریکی مندوب سیم براؤن بیک نے کہا کہ امریکہ کو شہریت کے بل پر تشویش ہے۔ ایک بیان میں انہوں نے بھارت سے اپنے آئینی وعدوں کی پاسداری کرنے پر زور دیا ہے۔
انتہائی واضح تنقید میں امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے شہریت کے بل پر بھارتی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر اور وزیر داخلہ امیت شاہ کے خلاف پابندیوں پر غور کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
کمیشن نے اس متنازع بل کو غلط سمت میں خطرناک موڑ قرار دیا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کے علاوہ بھی امریکی سیاست دانوں نے بھارت میں اقلیتوں کے خلاف نسلی امتیاز برتنے پر بھارت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
کشمیر کی صورتحال پر ڈیموکریٹ نمائندے پرمیلا جیاپال کی جانب سے تجویز کردہ ایک قرارداد میں نئی دہلی پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اگست میں کشمیر کی خود مختار حیثیت ختم کرنے کے بعد سے وادی میں پر عائد پابندیاں ختم کرے، مواصلات کو مکمل طور پر بحال کرے اور انسانی حقوق کے مبصرین اور غیر ملکی صحافیوں کو متنازع خطے میں داخلے کی اجازت دے۔
ناقدین اور بھارت کی حزب اختلاف کی شخصیات کا کہنا ہے کہ مودی نے ملک کے 20 کروڑ مسلمانوں میں عدم اعتماد پیدا کر دیا ہے۔
مودی حکومت نے اس تنقید کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ قانون پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے تعلق رکھنے والی مذہبی اقلیتوں کے لیے تیزی سے شہریت حاصل کرنے میں مدد دے گا اور ان میں بھارتی مسلمان شامل نہیں ہیں کیونکہ انہیں ملک میں ایسے تحفظ کی ضرورت نہیں ہے۔
بھارت کی وزارت خارجہ نے امریکی کمیشن برائے مذہبی آزادی کی جانب سے تنقید کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی بھی شخص عقیدے اور مذہب سے بالاتر ہو کر بھارت کی شہریت کے لیے درخواست دے سکتا ہے۔
وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے ایک بیان میں کہا: ’یہ افسوسناک ہے کہ کمیشن نے صرف ایسے معاملے پر اپنے تعصبات کا اظہار کرنے کا انتخاب کیا ہے جس پر اسے واضح طور پر بہت کم معلومات ہیں۔‘
موجودہ صورتحال کے پیش نظر امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور اسرائیل سمیت کئی ممالک نے اپنے شہریوں کو سفری ہدایت جاری کرتے ہوئے شمال مشرقی بھارت کے سفر سے گریز کرنے کا مشورہ دیا ہے۔