کلبھوشن یادو کا مقدمہ پاکستان اور بھارت دونوں ممالک کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔ اس سے قبل دونوں ممالک عالمی عدالت انصاف میں دو، دو تحریری جوابات جمع کروا چکے ہیں۔ عالمی عدالت انصاف میں ہونے والی چار روزہ سماعت میں دو دن بھارت اور دو دن پاکستان کے دلائل کے لیے مختص ہیں۔ بھارت کی جانب سے وکیل ہریش سالوے دلائل دے رہے ہیں جبکہ پاکستانی نمائندگی خاور قریشی کر رہے ہیں۔ عالمی عدالت انصاف تین سے چار ماہ میں مقدمے کا فیصلہ کرے گی۔ اس مقدمے کے حوالے سے بہت سے قانونی سوالات ہیں جن کا جواب جاننا ضروری ہے۔
کلبھوشن یادو کون ہے؟
پاکستانی حکام کے مطابق کلبھوشن یادوپاکستان میں جاسوسی اوردہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث تھے۔ انہیں تین مارچ 2016 کو مشخیل، بلوچستان سے گرفتار کیا گیا تھا۔ پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت 10 اپریل کو کلبھوشن کو پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل میں ان کا ٹرائل چلایا گیا۔ بھارت نے نو مئی 2017 کو عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن کی پھانسی کے خلاف اپیل دائر کی تھی۔ کمانڈر کلبھوشن کے پاس حسین مبارک کے نام سے پاسپورٹ موجود تھا جس کے اصل ہونے کی برطانیہ کا فرانزیک ادارہ تصدیق کر چکا ہے۔ کلبھوشن نے حسین مبارک پٹیل کے نام کے پاسپورٹ پر 17 بار دلی سے بیرون ملک فضائی سفر کئے۔
عالمی عدالت انصاف میں بھارت کا موقف کیا ہے؟
بھارت نے کلبھوشن یادو تک سفارتی رسائی دیے جانے کی استدعا کر رکھی ہے۔ بھارت کا موقف ہے کہ ان پر چلایا جانے والا مقدمہ فیئر ٹرائل نہیں تھا اور سزا سنائے جانے سے قبل ان تک بھارت کو سفارتی رسائی نہیں دی گئی۔ اس لیے انسانی حقوق کے تحت کلبھوشن کی رہائی کا حکم جاری کیا جائے۔ بھارت نے پاکستان میں یہ مقدمہ فوجی عدالت میں چلائے جانے پر بھی اعتراض کیا تاہم بھارت نے عالمی عدالت میں ان کی ریٹائرمنٹ کے ثبوت پیش نہیں کیے۔
پاکستان نے جوابی دلائل میں کیا موقف پیش کیا؟
پاکستان کے وکیل خاور قریشی نے کہا کہ بھارت ویانا کنونشن کے معاہدوں کے تحت سفارتی رسائی کی بات کرتا ہے تو کسی دوسرے ملک میں جاسوس بھیجنا بھی اس کنونشن کی خلاف ورزی ہے۔ ویانا کنونشن کے مطابق کسی بھی ملک میں جاسوسی کرنے والے اور ملکی سکیورٹی کے لیے خطرہ بننے والے کو سفارتی رسائی نہیں دی جاتی ہے۔ بھارت تو ان کی شہریت ہی ثابت نہیں کر سکا کیونکہ کلبھوشن کے پاس پاسپورٹ حسین مبارک پٹیل کے نام سے ہے جبکہ سروس کارڈ بھارتی بحریہ کے حاضر سروس افسر کا ہے۔ پاکستان نے ان کی ریٹائرمنٹ کی دستاویزات مانگی تھیں جو بھارت دینے میں ناکام رہا ہے۔ کلبھوشن کے پاس ابھی اپیل اور نظر ثانی کا حق موجود ہے۔ پاکستانی فوجی حکام کے مطابق کلبھوشن کا اعترافی بیان بغیر کسی دباو کے ہے۔ اس لیے ان کی بریت، رہائی اور واپسی کا بھارتی مطالبہ مضحکہ خیز قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستانی وکیل نے عدالت میں دستاویزات، خطوط اور میڈیکل رپورٹس بھی پیش کیں۔
کیا پاکستان عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عمل درآمد کرنے کا پابند ہے؟
بین الاقامی قانونی امور کے ماہراحمر بلال صوفی انڈپینڈنٹ اردو نے کہا کہ پاکستان عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کو ماننے کا پابند ہے لیکن مقدمے کی نوعیت بھی اہمیت کی حامل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عالمی عدالت کی صورت میں پاکستان کو ایک ایسا فورم ملا ہے جس میں پاکستان بھارت کی ہٹ دھرمیاں دنیا کے سامنے لا رہا ہے۔
احمر بلال صوفی نے کہا کہ بھارت یہ چاہتا ہے کہ کلبھوشن کی سزا کالعدم قرار دے کر اُسے بھارت منتقل کر دیا جائے۔ ’موجودہ صورت حال میں عالمی عدالت انصاف صرف سفارتی رسائی کا فیصلہ دے سکتی ہے، جسے پاکستان کی ہار اور بھارت کی جیت نہیں کہہ سکتے۔ بھارت کی جیت اُس صورت میں ہو گی جب عالمی عدالت انصاف کلبھوشن کو بےگناہ قرار دیتے ہوئے واپس بھجوانے کا فیصلہ دے۔‘
پاکستان کی نئے ایڈہاک جج مقرر کرنے کی درخواست
عالمی عدالت انصاف میں پاکستان کی جانب سے مقرر ایڈہاک جج جسٹس ریٹائرڈ تصدق حسین جیلانی سماعت کے پہلے ہی روز علیل ہو گئے۔ وہ عدالت تشریف لائے لیکن خرابی صحت کے باعث دی ہیگ کے ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ پاکستان کے دلائل سے قبل جسٹس تصدق حسین کی پھیپھڑوں میں انفیکشن کی وجہ سے پاکستان نے ایڈہاک جج تبدیلی کی درخواست دائر کر دی ہے۔ عدالت میں بھارت کے مستقل جج دلویر بنداری بنچ کا حصہ ہیں۔ عدالت انصاف نے پاکستانی جج تبدیل کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔