دہشت گردی کی عموماً وجوہات غربت، استعماری طاقت کی چیرہ دستیاں اور مذہبی انتہا پسندی میں تلاش کی جاتی ہیں۔ نائن الیون سے پہلے کبھی بھی بین الاقوامی سطح پر انتہا پسندی اور دہشت گردی کو کسی ایک مذہب کے ساتھ نہیں جوڑا گیا تھا۔
یہودی انتہا پسندوں کی وجہ سے کبھی بھی یہودیت کو انتہا پسند مذہب یا سری لنکا میں تمل خودکش حملہ آوروں کی وجہ سے ہندو مذہب کو دہشت گرد نہیں قرار دیا گیا اور نہ ہی ہندو مذہب کو گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام یا اندرا گاندھی کے قتل کے بعد سکھوں کے قتل عام کی وجہ سے دہشت گرد مذہب قرار دیا گیا۔ لیکن اسلام سے تعلق رکھنے والے کسی بھی فرد کی انتہا پسندی یا دہشت گردی سے اسلام کو فوراً دہشت گرد مذہب قرار دے دیا جاتا ہے۔
گو اس پروپیگینڈا میں اسلام دشمن قوتوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے لیکن اس انتہا پسندانہ رویئے میں کچھ مسلمان گروہوں نے بھی کوئی کمی نہیں چھوڑی ہے۔ ظلم کے خلاف جنگ اور استعماری قوتوں کا مقابلہ کرنا کوئی غلط بات نہیں لیکن اس جدوجہد میں معصوم اور بےگناہ لوگوں کو نشانہ بنانا کسی طرح بھی جائز نہیں قرار دیا جاسکتا۔
امریکی فوج نے ویتنام جنگ کے دوران لاکھوں معصوم ویتنامیوں کو قتل کیا، لاکھوں مکانات تباہ کیے اور کھڑی فصلوں کو جلا دیا لیکن ویتنامی عوام نے امریکی مظالم کا مقابلہ میدان جنگ میں ڈٹ کر کیا۔ معصوم امریکی عوام کو، جن کا جنگ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں تھا، کسی قسم کی دہشت گردی کا نشانہ نہیں بنایا گیا۔
لندن میں حالیہ دہشت گردی کے واقعے نے، جس میں دو بےگناہ برطانوی شہریوں کو خنجر کے حملے سے قتل کیا گیا، مسلمانوں اور اسلام کو دوبارہ کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔ دوبارہ یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ کیا اسلام ایسی تربیت دیتا ہے جس کی وجہ سے اس کے ماننے والے اس نوعیت کا انتہائی اقدام اٹھا سکتے ہیں۔
اس بحث میں اس بات کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے کہ برطانیہ جیسے ترقی یافتہ معاشرے کے شہری اگر اس قسم کی انتہا پسندانہ سوچ رکھتے ہیں تو اس میں برطانوی معاشرے کا کیا کردار ہے؟ کہیں اس معاشرے نے ایسی سوچ کو پھلنے پھولنے کا موقع تو نہیں دیا؟ اس طرح کی سوچ کو آگے بڑھنے سے کیسے روکا جائے؟
مغربی ممالک میں دہشت گردی کے محرکات کا جائزہ لینے کے لیے نہ صرف گہری سوچ بچار کی ضرورت ہے بلکہ ان کے تدارک کے لیے تصیحی اقدامات اٹھائے جانا بھی اشد ضروری ہے۔
برطانیہ میں عیسائیت کے بعد دوسرا بڑا مذہب اسلام ہے۔ مسلمانوں کی تعداد تقریباً 27 سے 28 لاکھ کے درمیان ہے جو کہ ملک کی آبادی کا تقریباً پانچ فیصد حصہ ہے۔ ان میں بےروزگاری سب سے زیادہ ہونے کی وجہ سے مسلمان برطانیہ کی پسماندہ ترین آبادی سمجھے جاتے ہیں۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق تقریباً 13 فیصد مسلمان بے روزگار ہیں۔
اس کے مقابلے میں مسیحی آبادی میں بےروزگاری کی شرح تقریباً چار فیصد ہے۔ 16 اور 24 سال کے درمیان عمر والے مسلمانوں میں بےروزگاری کی شرح 28 فیصد ہے جبکہ عیسائیوں میں یہ شرح 11 فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ مسلمانوں کی اس طرح کی معاشی پسماندگی انتہا پسند خیالات کو جنم دیتی ہے۔ نتیجتاً مذہبی رہنما نوجوانوں میں یہ احساس پیدا کرنے میں کامیاب رہے ہیں کہ ان کی معاشی بدحالی کی اصل وجہ مذہبی تعصب ہے۔
اس لیے آج کے مسلمان پچھلی تین دہائیوں کے مسلمان نوجوانوں سے مختلف سوچ رکھتے ہیں اور اپنی برادری کی پسماندگی کو مذہب سے جوڑتے ہیں۔
برطانیہ میں 2008 میں توہین مذہب کے قانون کے خاتمے کے بعد مختلف مذہبی عبادت گاہوں اور مراکز خصوصاً مساجد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جس سے مسلمانوں کو تبلیغ کے مختلف مواقع ملے۔ کثیر تعداد میں مقامی لوگ بھی اسلام کے دائرے میں داخل ہوئے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس وقت برطانیہ میں تقریباً 1800 کے قریب فعال مساجد اور مراکز ہیں۔ اس سے مذہبی رہنماؤں کو نوجوانوں کے ساتھ روابط بڑھانے اور انہیں معاشرے میں سماجی اور معاشی ناہمواریوں کے بارے میں اپنے خیالات و نظریات سے روشناس کرانے اور ان کے خلاف جدوجہد پر اکسانے میں کافی کامیابی رہی ہے۔ اس وجہ سے ایک تحقیق کے مطابق برطانوی مسلمان باقی مغربی ممالک کے مسلمانوں کی نسبت، مغربی معاشرے کے بارے میں زیادہ منفی رجحانات رکھتے ہیں۔
برطانیہ کی کثیرالثقافتی پالیسی کے بارے میں غلط فہمیاں بھی انتہا پسندی میں اضافے کا ایک سبب ہے۔ اکثر اقلیتی گروہ خصوصاً مسلمان سمجھتے ہیں کہ برطانوی معاشرہ ان کے مذہبی اداروں اور ثقافتی روایات کا احترام نہیں کرتا اور ان روایتوں کے برخلاف برطانوی قوانین کو ترجیح دی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے اقلیتیں اپنی ثقافت اور روایات کے تحفظ میں اور بھی فعال ہو جاتی ہیں جو کہ ان کو برطانوی معاشرے سے مزید دوری کی طرف لے جانے کا سبب بنتا ہے۔ نتیجتا یہ انتہا پسند رجحانات کئی مقامات پر آشکارا ہوتے ہیں۔
اسلام کا ایک انجانا خوف برطانیہ کی عیسائی اکثریت کی مسلمانوں سے اور ان کی ثقافت سے دوری کا سبب ہے۔ یہی فاصلے مخالفانہ اورجارحانہ رویوں کو جنم دیتے ہیں اور مسلمانوں کے دلوں میں برطانوی اکثریتی معاشرے کے خلاف نفرت کا سبب بنتے ہیں۔ یہ عوامل ان مسلمانوں کے لیے بھی مشکلات پیدا کرتے ہیں جو اکثریتی معاشرے کا معمول کا جزو بننا چاہتے ہیں۔
تحقیق اس امر کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اکثر دہشت گردی کے واقعات کے بعد مسلمان طلبہ کو تعلیمی اداروں میں معاشرتی بائیکاٹ اور مجرمانہ حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ تقریباً 47 فیصد مسلمان طالب علم اس قسم کے حملوں اور رویے کا شکار رہے۔
اسلام کے دائرے میں شامل ہونے والے نومسلم افراد بھی اس معاشرتی انتشار میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ وہ چونکہ اچھی طرح پڑھنے اور سمجھنے کے بعد مسلمان ہوتے ہیں تو وہ زیادہ سختی سے اسلامی اصولوں پر عمل درآمد پر زور دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ نہ صرف اپنے ہم وطنوں سے علیحدگی کا شکار ہوتے ہیں بلکہ پیدائشی مسلمانوں کے سانچے میں ڈھلنے میں بھی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ چونکہ وہ تبلیغ کے ذریعے مسلمان ہوتے ہیں تو مسلمانوں کے بین الاقوامی مسائل پر ان کی ہمدردیاں پیدائشی مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ گہری ہوتی ہیں جو کہ انہیں باآسانی انتہاپسند اقدام کی طرف مائل کر لیتی ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق اس وقت برطانیہ میں تقریباً تین ہزار سے زائد مسلمان تنظیمیں فعال ہیں۔ ان میں کئی کسی نہ کسی طریقے سے انتہا پسندانہ خیالات کی حامل ہیں اور ان خیالات کو پھیلانے میں متحرک کردار ادا کرتی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق کچھ تنظیمیں مختلف ممالک میں انتہا پسند تنظیموں کو مالی اور سیاسی امداد بھی مہیا کرتی ہیں۔
انتہا پسندی کی اس لہر پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے کہ برطانوی حکومت دیگر مغربی ممالک اور مسلمان رہنماؤں سے مل کر ایک طویل المعیاد حکمت عملی تشکیل دے جس کے تحت ان ملکوں میں مقیم مسلمانوں کے سیاسی، معاشرتی اور معاشی مسائل پر توجہ دی جائے اور انہیں حل کرنے کے لیے مشترکہ کوششیں کی جائیں۔
مغربی ممالک کی اشرافیہ کو احساس ہونا چاہیے کہ ان کی غیرمحتاط پالیسیاں مغرب کے خلاف نفرت میں اضافہ کر رہی ہیں۔ اس اشرافیہ کو تو دہشت گردی کے خطرے سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے مگر عوام کو یہ سہولت میسر نہیں جو کہ عموماً دہشت گردی کے واقعات کا نشانہ بنتے ہیں۔
مغرب میں مقیم مسلمانوں کو بھی یہ احساس ہونا چاہیے کہ ان ممالک میں شریعت کے نفاذ کا خیال کم علمی اور ناسمجھی کا آئینہ دار ہے۔ جس طرح کہ مسلمان ملکوں میں اس طرح کی کوئی کوشش پسند نہیں کی جائے گی اسی طرح مغربی ممالک میں بھی اس قسم کی کوشش یا مطالبہ کرنا کسی طرح مناسب نہیں۔
مسلمانوں کو ان مغربی ممالک میں ہر طرح کے مواقع، بشمول اعلیٰ تعلیم، حاصل ہیں اور انہیں ان مواقع سے فائدہ اٹھا کر معاشرے میں اپنے ہم مذہبوں کے لیے ایک اچھا اور پروقار مقام پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔