آج کل جہاں پوری دنیا میں وسائل ضائع ہونے کے خلاف مختلف قسم کی مہمیں چلائی جا رہی ہیں، قومیں پانی کے بحران میں مبتلا ہیں، پلاسٹک کے شاپنگ بیگوں کا استعمال کم سے کم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے، سگریٹ نوشی کم کرنے کی خاطر اس پہ گناہ ٹیکس تک لگایا جا رہا ہے، بجلی بچانے کی مہمیں آئے روز چلتی ہیں، وہیں کیا یہ ممکن نہیں کہ ہم کپڑوں کے بدلتے فیشن پر بھی ایسی ہی ایک نظر ڈال سکیں؟
سرمایہ دار نظام کی اس دوڑ میں ایک اہم بات یہ ہوئی کہ لوگ اپنے آس پاس سے لاعلم ہوتے چلے گئے۔ آپ کا بچہ کیا پہن رہا ہے، آپ کس طرح ہر سال نئے کپڑے خریدنے پر مجبور ہیں، آپ کے جوتے پھٹنے سے پہلے کیسے بدلوائے جاتے ہیں، یہ سب کچھ اس قدر غیر اہم دکھائی دیتا ہے کہ اس بارے میں سوچنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی جاتی۔
ایک زمانے میں کپڑے یہ سوچ کے خریدے جاتے تھے کہ ان میں دیرپا ہونے کی خوبی کس حد تک موجود ہے، یہ کتنا عرصہ پہنے جا سکتے ہیں؟
پہلے بچے کے لیے خریدے گئے کپڑے سارے بہن بھائی باری باری پہنتے تھے، کیا آج کل بنائے جانے والے کپڑوں میں یہ خوبی موجود ہے کہ وہ اس قدر مضبوط اور دیرپا ہوں؟
خواتین کے لباس میں بھی ایسا ہی معاملہ تھا۔ نانی کی خریدی گئی شال نواسیاں اوڑھتی تھیں اور دادی کی پہنی ساڑھی پوتیوں کے حصے میں آیا کرتی تھی۔ ماؤں کے شرارے غرارے کئی تیوہاروں تک بہو بیٹیوں کے کام آتے تھے۔ ہر تین ماہ بعد لان کے بدلتے ڈیزائنوں کی دنیا میں اب کیا ایسا ہونا ممکن ہے؟
خاندان میں ہونے والے ہر نئے فنکشن کے لیے ایک نیا جوڑا تیار کرنے کی روایت کب تک ہم پر مسلط رہے گی؟ کیا اس بارے میں کوئی اجتماعی سوچ بروئے کار لائی گئی؟
اب یہ مسئلہ مردوں کے ساتھ بھی شروع ہو گیا ہے۔ ایک سال کوٹ کے لیپل پتلے ہوتے ہیں، اگلے سال چوڑے لیپلز کا فیشن ہوتا ہے۔ قمیص کے کالروں کے ساتھ بھی یہی مسئلہ رہتا ہے۔ ایک سال کوٹ میں دو چاک ہوتے ہیں، اگلے برس سرے سے چاک ہی بند ہو جاتے ہیں۔ اس سال پتلون کے پائنچے تنگ ہیں تو اگلے سال بیل باٹم کا فیشن آ جائے گا۔ لیدر جیکٹس پچھلے برس فیشن میں تھیں تو اس سال انہیں پہن کر آپ قدامت پسند دکھائی دیں گے۔ ٹائی کی چوڑائی بھی اسی طرح سال بہ سال تبدیل ہونے پر آ گئی ہے۔ شلوار قمیص والوں کے لیے مہنگی واسکٹیں خریدنا ایک مشکل مرحلہ ہے۔
خواتین، بچے اور مرد، تینوں کے کپڑے خریدتے ہوئے اب یہ ہرگز دماغ میں نہیں ہوتا کہ ان کپڑوں کو سال بہ سال چلایا جانا ہے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ آپ نے جو بھی کپڑے اس سال خریدے، وہ اگلے سال آپ کے پہننے قابل نہیں ہوں گے؟
تو کل ملا کے افراتفری کے اس دور میں اپنے آس پاس کے لوگوں سے رائے جاننے کے لیے ہم نے ایک سوال نامہ مرتب کیا جس کے سوالات درج ذیل تھے:
کیا فیشن کے مطابق کپڑے پہننا ضروری ہیں؟
کیا لان کے بڑھتے ہوئے ریٹ اس سال آپ کو سوچنے پہ مجبور کریں گے؟
کیا سدا بہار کپڑوں کا دور اب کبھی واپس نہیں آئے گا؟
بحیثیت مرد آپ فیشن کو زندگی کے لیے کتنا ضروری سمجھتے ہیں؟
آئیے جوابات دیکھتے ہیں:
وسیم عباسی
اسلام آباد کے رہائشی وسیم عباسی کہتے ہیں کہ فیشن کا علم ایک حد تک ہونا بہت ضروری ہے۔ کم از کم اتنا ضرور جاننا چاہیے کہ آپ قرون وسطی سے تعلق رکھنے والے آدمی نہ لگتے ہوں۔اچھے کپڑے پہننے کا شوق ان کے خیال میں ہرگز برا نہیں ہے۔
وہ ذاتی طور پہ فیشن کو زیادہ نہیں اپناتے مگر اس پہ نظر ضرور رکھتے ہیں۔ لان کے بڑھتے ریٹ ان کے لیے بھی ہر سال بہت سارے لمحات ہائےفکریہ پیدا کرتے ہیں ۔
ان کے خیال میں اگر کپڑے کا معیار اچھا ہے، پرنٹ خوبصورت ہے، رنگ دلکش ہیں تو پھر اس بات کی اہمیت باقی نہیں رہتی کہ سامنے کون سا برانڈ موجود ہے۔ کم قیمت میں بھی اچھا کپڑا خریدنا ممکن ہو سکتا ہے۔ وسیم عباسی کے مطابق سدا بہار کپڑوں کا دور ہمیشہ رہے گا اور خاص طور پہ کالے رنگ والے کپڑوں کی اہمیت تو ہر دور میں ہوتی ہی ہے۔
ایمان حسن
ایمان حسن کے مطابق فیشن والے کپڑے پہننا بالکل ضروری نہیں۔ ان کے خیال میں تو ڈیزائنرز نے پوری کپڑا مارکیٹ ہائی جیک کر لی ہے۔ انہوں نے 2008 کے آس پاس کا دور یاد کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت یہ سارے مسائل نہیں ہوتے تھے۔ کپڑوں تک عام انسان کی رسائی آسان تھی اور رنگ رنگ کی لانیں موجود نہیں تھیں۔
'ہم جتنے زیادہ انڈر ڈویلپڈ ہیں، غریب قوم ہیں، اتنی ہی تیزی سے ہمارے یہاں فیشن تبدیل ہوتے ہیں۔ ایک سیزن میں قمیص کی لمبائی گھٹنوں سے اوپر ہوتی ہے، اگلے سیزن میں قمیص پیروں تک آ رہی ہوتی ہے۔ ایک سال کے فیشن میں پائجامہ اے لائن ہوتا ہے ، چھ ماہ بعد ہی وہ فلیپر میں بدل جاتا ہے۔ فیشن کا اس تیزی سے بدلنا اور عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتے جانا کوئی صحت مند عمل نہیں ہے'۔
ایمان کہتی ہیں کہ ان مہنگی لان والوں کو اچھا خاصا دھچکا ریپلیکا والوں نے پہنچایا ہے۔ بالکل وہی ڈیزائن نیا پرنٹ آنے کے ایک ہفتے بعد مارکیٹ میں اس سے چوتھائی قیمت پر موجود ہوتا ہے۔ جو لوگ مہنگے کپڑے افورڈ کر سکتے ہیں وہ بھی یہی ایک نمبر، دو نمبر اور تین نمبر کاپی پہن رہے ہوتے ہیں۔
اسرار احمد
اسرار احمد جو ایک بین الاقوامی صحآفتی ادارے سے وابستہ ہیں، ان کے مطابق لباس وہ ہوتا ہے جس میں آپ آرام دہ محسوس کریں اورجو آپ پر جچتا ہو ۔
'آپ چاہیں یا نہ چاہیں، فیشن کہیں نہ کہیں آپ کو متاثر ضرور کرتا ہے۔ سوسائٹی کا پریشر فیشن کے ساتھ مل کر آپ پہ اثر انداز ہوتا ہے۔ اہل خانہ کےکپڑوں میں لان کی قیمت ہر برس مزید ہو جانا ان کے نزدیک بھی ہمیشہ کا ایک مسئلہ ہے۔ مڈل کلاس کے لیے تو یہ مجبوری اور مرضی کے درمیان کا فیصلہ ہوتا ہے'۔
سدا بہار یا ہمیشہ چلنے والے فیشن کے کپڑوں کے متعلق انہوں نے کہا کہ اب تو بچے بھی یہ کہنے لگے ہیں کہ فلاں سوٹ میں نے فلاں شادی پہ پہنا تھا، تو ایسا ہونا اب شاید ناممکن ہے کہ سدابہار لباس کا دور واپس آ جائے۔
انعم قریشی
لاہور سے تعلق رکھنے والی انعم قریشی کہتی ہیں کہ فیشن سے اپ ڈیٹ رہنا بہت ضروری ہے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والی انعم جو صحافت سے وابستہ ہیں، ان کے مطابق اگر آپ جاب کرتی ہیں تو ٹرینڈز کے ساتھ چلنا آپ کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے۔ کپڑے فیشن کے مطابق ہوں تو آپ کی شخصیت نکھر کے سامنے آتی ہے۔
'میں زیادہ برانڈ کانشس نہیں ہوں۔ ہمارے لاہور میں آپ لبرٹی مارکیٹ جائیں تو آپ کو ایک سے بڑھ کر ایک کرتے مل جاتے ہیں۔ ان کا کپڑا بھی زیادہ اچھا ہوتا ہے اور ریپلیکا سے تو وہ بہت زیادہ بہتر چل جاتے ہیں'۔
انعم کے مطابق سدا بہار کپڑوں کا دور اب واپس آ جانا ممکن نہیں ہے۔
رابعہ اکرم خان
رابعہ اکرم خان کا تعلق پشاور سے ہے۔ آٹھ برس سے بسلسلہ روزگار وہ اسلام آباد میں اقامت پذیر ہیں۔
انہوں نے فیشن کے بارے میں کہا کہ آپ کو دنیا کے ساتھ تو بہرحال چلنا ہوتا ہے ورنہ آپ عجیب سے لگتے ہیں۔ 'میری بات کریں تو کبھی کبھی میں فیشن کے خلاف جا کے بھی کپڑے پہن لیتی ہوں لیکن ورکنگ ومن ہوتے ہوئے اور خاص طور پہ اسلام آباد میں رہ کر ایسا کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے'۔
انہوں نے مزید کہا، 'جب تک لان کے ریٹ پانچ سات ہزار تک ہوتے تھے، میں آرام سے خرید لیتی تھی، پچھلے سال یہ گیارہ بارہ ہزار روپے تک پہنچ چکے تھے۔ اب ایسا ہونا مشکل ہے'۔ درزی کو اپنا ڈیزائن سمجھا کر خود سے نت نئے کپڑے بنوانا ان کے خیال میں اب زیادہ بہتر آئیڈیا ہے۔