پاکستان کی تاریخ میں کم ہی کچھ نیا ہوتا ہے۔ وہی دائرے ہیں جن میں ہم گھومتے رہتے ہیں۔ خصوصی عدالت کا سابق فوجی حکمران جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو سزائے موت دینا یقیناً ایک انہونی ہے۔
اسی وجہ سے ردعمل روایتی نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن فوجی ترجمان، حکومت اور اپوزیشن کے ردعمل سے لگتا ہے کہ ہم ابھی بھی نوے کی دہائی میں کہیں پھنسے ہوئے ہیں۔
بلاشبہ خصوصی عدالت نے خصوصی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہی فیصلہ کیا جو آئین کے عین مطابق ہے۔ آئین کے آرٹیکل چھ میں واضح طور پر درج ہے کہ آئین توڑنے والے کی کیا سزا ہے۔ عدالت نے وہی سزا سنا دی۔ لیکن جس ملک میں تین آمر اس سزا سے بچ گئے ہوں تو چوتھے کی سزا پر واویلا تو مچنا تھا۔
بہتر ہوتا کہ فوج کے ترجمان وہی کہتے جو ہمیشہ کہتے رہے کہ فوج عدلیہ اور اس کے فیصلوں کا احترام کرتی ہے اور اس کو اس فیصلے پر تحفظات ہیں اور چپکے سے حکومت کے کان میں کہہ دیتے کہ اس فیصلے پر نظرثانی کی اپیل کر دیں، باقی وہ خود دیکھ لیں گے۔ تاہم تیر کمان سے نکل چکا ہے۔ ایک غیرمعمولی سخت بیان داغا جا چکا ہے۔ اور ایسا عوامی سطح پر ردعمل پہلی مرتبہ سامنے نہیں آیا ہے۔ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ یہ معمول نہ بن جائے بدلتے حالات میں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اپوزیشن اس کو جمہوریت کی بالادستی قرار دے رہی ہے جیسے اگر ان کی حکومت ہوتی تو وہ اس فیصلے کی دھجیاں نہ اڑاتی۔ اس کا بھی تحریک انصاف کی حکومت سے شاید زیادہ مختلف ردعمل نہ ہوتا۔ رہا میڈیا کا سوال تو ہم بیچاروں کو تو سوال کرنے کی آزادی ہی نہیں ہاں اس فیصلے کی بھد اڑانے کی آزادی ضرور ہے۔
اب آ جائیں فیصلے پر عمل درآمد پر۔ اس سے پہلے آپ میری اس بات پر قہقہے لگائیں میں کچھ گزارشات پیش کر دوں۔ ہمارے لڑکپن میں ایک ٹی وی ڈرامے کا ڈائیلاگ بہت مشہور ہوا جس میں ایکٹر کہتا ہے کہ ’اگر ایسا ہوا تو دو باتیں ہو سکتی ہیں۔‘ میں اس فیصلے پر اسی ڈائیلاگ کا سہارا لوں گا۔
خصوصی عدالت کی سزا پر دو باتیں ہو سکتی ہیں۔ یا تو حکومت اس فیصلے کے خلاف اپیل میں جائے گی یا نہیں جائے گی۔ اگر چلی گئی تو دو باتیں ہو سکتی ہیں۔ یا تو عدالت عظمیٰ اس فیصلے کو رد کر دے یا برقرار رکھے۔ زیادہ مسئلہ لفظ غداری کا ہے۔ شاید آئین شکنی کے لیے ہمیں کوئی دوسری تشریح دریافت کرنے پڑے گی۔
رد کر دیا تو ٹھیک ہے مگر برقرار رکھنے کی صورت میں دو باتیں ہو سکتی ہیں۔ پہلی بات لکھنے سے قاصر ہوں مگر دوسری بات یہ ہے کہ صدر اس سزا کو معاف کر دیں۔ معاف کر دیا تو ٹھیک ہے ورنہ دو باتیں ہو سکتی ہیں۔ حکومت کو لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں یا وہ بیچ میں سے نکل سکتی ہے۔ ان دونوں صورتوں میں یہ فیصلہ آنے والے دنوں میں ملک کی سیاست اور اس میں فوج کی مداخلت کے حوالے سے ایک ایسی نظیر بنے گا جو مستقبل میں فوجی بغاوت کو روکنے میں سنگ میل ثابت ہو گا۔
سنگ میل ثابت ہو گیا تو ٹھیک ہے ورنہ دو باتیں ہو سکتی ہیں۔ یہی کہ ملک میں سیاسی اور معاشرتی بے چینی پیدا ہو گی۔ آگے کی دو باتیں لکھنے کی کوشش کی پر قلم رک سا جاتا ہے۔ خدا پاکستان کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔