بھارت میں شہریت کے امتیازی قانون کے خلاف مظاہرے جمعرات کو بھی جاری رہے۔ مشرق میں کولکتہ اور گوہاٹی اور مغرب میں ممبئی تک، شمال میں دارالحکومت نئی دہلی سے جنوب میں چنئی اور حیدر آباد تک بھارت بھر میں لاکھوں افراد سڑکوں پر ہیں۔
مظاہروں میں کم از کم چھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ نئی دہلی میں مظاہرین مسلسل تین دن سے احتجاج کر رہے ہیں۔
دو بھارتی ٹیلی کام کمپنیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے دہلی کے بعض حصوں میں اپنی سروسز حکومت کے حکم پر معطل کر دیں۔
متنازع قانون کیا ہے؟
دونوں بھارتی ایوانوں کی منظوری کے بعد شہریت ترمیمی ایکٹ گذشتہ ہفتے قانون بن گیا تھا۔ قانون کے تحت استحصال کا شکار اقلیتیں تیزی سے بھارتی شہریت حاصل کر سکتیں ہیں۔
اس قانون کا اطلاق افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش سے ترک وطن کرنے والے ہندو، مسیحی، سکھ، جین، زرتشت یا بدھ شہریوں پر ہو گا۔ تاہم یہ قانون مسلمانوں کے لیے نہیں۔
استحصال کا شکار خطے کی دوسری اقلیتیں جن میں سری لنکا کے تامل ہندو، میانمار کے روہنگیا مسلمان یا چین کے اویغور مسلمان شامل ہیں، اس قانون سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔
بھارت میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کے مرکزی رہنماؤں نے تردید کی ہے کہ شہریت کے قانون میں مسلمانوں کو امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا گیا۔
دوسری جانب بی جے پی کے صدر امِت شاہ کئی بار مسلمان تارکین وطن کے خلاف کریک ڈاؤن کی بات کر چکے ہیں۔ انہوں نے اپریل میں بنگلہ دیش سے ترک وطن کرنے والے مسلمانوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ’بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت دراندازوں کو ایک ایک کرکے اٹھائے گی اور انہیں خلیج بنگال میں پھینک دے گی۔‘
انہوں نے ریاست جھاڑکھنڈ میں خطاب کرتے ہوئے ایک بار پھر کہا ’میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ 2020 میں عام انتخابات سے پہلے میں انہیں نکال باہر کروں گا۔‘
تارکین وطن کو کس طرح نکال باہر کریں گے؟
پہلے آپ کو ان کی شناخت کرنی ہو گی۔ یہاں بھارتی شہریوں کے قومی رجسٹر کا ذکر آتا ہے۔ ستمبر میں بھارتی ریاست آسام کے 19 لاکھ رہائشیوں کے علم میں آیا تھا کہ ان کا نام شہریت کے قومی رجسٹر سے نکال دیا گیا ہے کیونکہ وہ اپنی بھارتی شہریت ثابت کرنے میں ناکام رہے تھے۔
شہریت کے نئے قانون کے تحت ہندوؤں کے لیے موقع ہے کہ وہ افغانستان، بنگلہ دیش یا پاکستان سے ترک وطن ثابت کر کے بھارتی شہریت حاصل کر سکتے ہیں۔ دوسری جانب مسلمان دستاویزی طور پر بھارتی شہریت ثابت کرنے میں ناکامی پر غیرملکی قرار دیے جانے کے خطرے سے دوچار ہیں۔
وزیرداخلہ امِت شاہ نے شہریوں کے قومی رجسٹر کا دائرہ آسام سے پورے ملک میں پھیلانے کا اعلان کر رکھا ہے۔
کیا بی جے پی کامیاب ہوسکتی ہے؟
ان کی کامیابی کی تمام وجوہات موجود ہیں۔ بھارتی شہریوں کا قومی رجسٹر بی جے پی کے انتخابی منشور کا حصہ تھا۔ مئی میں دوبارہ انتخاب کے بعد وزیراعظم نریندر مودی اپنے سوشل ایجنڈے کے نکات طے کر چکے ہیں، جن میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی خودمختاری کا خاتمہ بھی شامل تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ناقدین کا کہنا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے اس قسم کے تمام اقدامات کا مقصد بھارت کو ہندو ریاست میں تبدیل کرنا اور ملک کے تقریباً 20 کروڑ مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانا ہے۔
شہریت کے متنازع قانون کے خلاف بھارتی سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کی جا چکی ہیں لیکن ان کی سماعت شروع ہونے میں کئی ماہ لگ جائیں گے۔ عدالت کیا فیصلہ دے گی اس کا بھی صرف اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ قانون کی مخالفت میں مظاہرین کتنی دیر تک اپنی جان اور روزگار داؤ پر لگائیں گے؟
بھارتی ریاست مغربی بنگال، اتر پردیش، آسام، میگھالے، اروناچل پردیش اور تری پوری میں انٹرنیٹ بند کر دیا گیا ہے۔ اس قدم کا مقصد مظاہرین کو اکٹھا ہونے سے روکنا ہے۔ کشمیر میں چار اگست سے انٹرنیٹ سروس بند ہے۔
بھارت میں شہریت کے متنازع قانون کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر توجہ حاصل ہو چکی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ترجمان سٹیفنی دوجارک کا کہنا ہے کہ عالمی ادارے کو ’تشدد اور طاقت کے مبینہ استعمال پر تشویش ہے۔‘ امریکہ کی وزارت خارجہ نے بھارت پر ’اقلیتوں کے حقوق کی آئین اور جمہوری روایات کے مطابق خیال رکھنے کے لیے دباؤ ڈالا ہے۔‘
تاہم بھارتیہ جنتا پارٹی کے حامیوں میں اس کے اقدامات مقبول ہیں۔ مودی کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت مسلمانوں سے امتیازی سلوک نہیں کر رہی۔ اس ہفتے ایک ٹویٹ میں ان کا کہنا تھا کہ ’نیا قانون بھارت کے کسی شہری جس کا کوئی بھی مذہب ہو متاثر نہیں کرتا ہے۔‘
کیا اس بار مودی زیادہ دور نہیں نکل گئے؟ اس سوال کے جواب سے اس بات کا اچھی طرح تعین کیا جا سکتا ہے کہ آیا بھارت سیکولر رہے گا جیسا کہ اس کے بانیوں نے قرار دیا تھا؟