معین اختر کا کہنا تھا کہ اگر ان سے شہرت چھن جائے تو ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے حواس پر قابو نہ رکھ سکیں۔ وہ منتظر تھے کہ کب ان کا زوال شروع ہو کیونکہ دنیا میں ہر عروج کو زوال ہے لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ کیونکہ وہ اللہ کے بہت قریب ہیں تو ممکن ہے کہ جب وہ دنیا سے رخصت ہوں تو یہی عزت و مقام ان کے ساتھ وابستہ رہے۔
درحقیقت دیکھا جائے تو ہر فن مولا معین اختر نے صرف عروج کا دور دیکھا اور جب ان کی زندگی کا چراغ گل ہوا تو اس وقت بھی وہ شہرت کے ساتویں آسمان پر تھے۔ معین اختر نے فن کی اس شاہراہ پر 60 کی دہائی میں قدم رکھا۔ اداکاری کا جنون کی حد تک شوق تھا لیکن والد کی مخالفت راہ کی دیوار بنی۔
معین اختر کے مطابق وہ کم عمری سے پیسہ کمانا چاہتے تھے۔ انہوں نے صرف 13 برس کی عمر میں شکسپیئر کے ڈرامے ’دی مرچنٹ آف وینس‘ نامی سٹیج ڈرامے میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ والد کی خراب صحت اس بات کی اجازت نہیں دیتی تھی کہ وہ تعلیمی سلسلہ جاری رکھیں۔ ایک بار والد پر یہ انکشاف بم بن کر پھٹا کہ ان کا بیٹا، سٹیج پر کام کرتا ہے۔ انہوں نے معین اختر کو انہی کی بیلٹ سے خوب مارا۔ لیکن پھر انہوں نے بھی ہتھیار ڈال دیے۔
معین اختر بتاتے تھے کہ وہ ابتدا میں مختلف اداکاروں کی نقالی کرتے، کبھی منہ سے مختلف ساؤنڈ ایفکٹس نکالتے اور کبھی لطیفے سنا کر حاضرین کو ہنساتے تو کبھی گانے گا کر اپنے وجود کو شوبز کی نگری میں زندہ رکھنے کی جدوجہد کرتے۔ اپنی اسی خوبی کی وجہ سے 60 کی دہائی میں وہ مقبولیت حاصل کرگئے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے بطور کامیڈین ایک نئی شناخت قائم کی اور ایک نیا تاثر اجاگر کیا۔
ان سے پہلے جو کامیڈین ہوتے تھے وہ سر پر منوں تیل لگاتے، منہ پر سرخی پاؤڈر کا استعمال کرتے، لمبے چوڑھے پاجامے زیب تن کرتے اور اپنے جملوں سے زیادہ اپنے حلیے اور اوٹ پٹانگ حرکتوں سے حاضرین کو ہنسانے کی کوشش کرتے لیکن معین اختر نے ابتدا سے جہاں پرمزاح اور بامقصد کامیڈی پیش کی وہیں اپنے لباس اور انداز پر خاص توجہ دی۔ اس میں انہوں نے مہذب پہلو کا خیال رکھا۔
خوش لباس دکھنے کے لیے وہ دوستوں سے ان کے اچھے کپڑے مانگتے۔ جبکہ ایسے دوست بناتے جن کی قد و قامت معین اختر سے ملتی جلتی ہو تا کہ وہ ان کے ملبوسات کا استعمال کریں تو سائز میں کوئی فرق نہ ہو۔ اپنی الگ اور منفرد پہچان بنانے کی وجہ سے ہی معین اختر کو معاوضے کے طور پر 50 روپے ملتے جبکہ اس دور میں دوسرے کامیڈین پانچ سے 10 روپے کماتے تھے۔
معین اختر پہلی بار ٹی وی پر کام کرنے کے تجربے کو یاد کرتے تو خود اپنی حماقت پر مسکرا دیتے۔ وہ کہتے کہ کراچی سینٹر کے پروڈیوسر مرحوم امیر امام نے انہیں چور نامی ڈرامے میں کاسٹ کیا۔ اس کردار کو ادا کرتے ہوئے وہ کبھی وحید مراد کی نقل کرتے تو کبھی محمد علی بن جاتے کیونکہ وہ اب تک صرف نقالی ہی کرتے آئے تھے۔ جبھی امیر امام نے غصے میں آ کر کہا کہ بھائی اگر ہمیں محمد علی یا وحید مراد کی خدمات درکار ہوں گی تو ہم انہیں کاسٹ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ بہتر یہ ہوگا کہ آپ اپنی صلاحتیں دکھائیں۔ اس پر ڈر کر معین اختر ٹی وی سٹیشن سے نو دو گیارہ ہوگئے۔
وہ کہتے کہ ان کے فن کو نکھارنے میں اصل محنت ضیا محی الدین کی رہی۔ جن کے شو میں انہیں بھرپور موقع ملا تو کسی جوہر شناس کی طرح ضیا نے ان کی صلاحتیں بھانپ لیں۔ ساتھ ساتھ رہنمائی بھی کی، معین اختر کی کمزوریوں کو دور کیا اور مزاح کے حوالے سے مفید ٹپس دیں۔ جو ان کی فنی زندگی کو ایک نئے سنگ میل میں داخل کرگئیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
معین اختر یہ تسلیم کرتے کہ شوبز سے وابستہ رہتے ہوئے خود کا وجود برقرار رکھنے کے لیے انہوں نے کئی پینترے بدلے۔ ہر شعبے میں خود کو آزمایا۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ شوبز کی نگری بہت بےوفا ہے، یہاں پل بھر میں شہرت ملتی ہے اور ایک ناکامی یا دوری آپ کو آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل بنا سکتی ہے۔ وہ یہ بھی کہا کرتے کہ فنکار عدم تحفظ کا شکار رہتے ہیں۔
ان کے مطابق ہر بڑے فنکار کی زندگی میں تین مرحلے آتے ہیں۔ ایک بار وہ اپنے کام کی کھاتا ہے پھر نام کی اور پھر آخر میں دوبارہ سے کام کی۔ انہوں نے یہ تینوں مراحل دیکھے۔ معین اختر کا کہنا تھا کہ کئی ٹی وی شوز کی میزبانی کرتے ہوئے وہ مہمانوں کو پہلے سے بتا دیتے کہ اگر وہ ان کے کسی سوال پر یہ جواب دیں گے یا ان پر کوئی جملہ کسیں گے تو اس کی خاصی پذیرائی ملے گی۔ اسی لیے بیشتر مہمانوں کو طے شدہ جملے بتا دیتے جن میں معین اختر پر بھپتی کسی گئی ہو۔ جب مہمان ان کی ادائیگی کرتے تو دیکھنے والے خوشی سے جھوم اٹھتے کہ دیکھا مہمان نے کیسا معین اختر کو کرارا جواب دیا۔ وہ مانتے تھے کہ وہ مذاق کرتے تھے اڑاتے نہیں تھے۔
یوں تو معین اختر نے بےشمار ڈرامے، سٹیج شوز، فلموں اور کئی اداکاروں کی نقالی کی لیکن ان کے کیرئیر میں ’روزی‘ ایک مثال بن کر رہ گیا۔ کہانی تھی ایک ایسے ناکام فنکار کی جو عورت کا روپ دھارتا ہے تو اسے ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔ پروڈیوسر ساحرہ کاظمی نے مشہور ہالی وڈ فلم ’ٹوٹسی‘ سے متاثر ہو کر عمران اسلم سے یہ ڈراما لکھوایا۔
معین اختر کہتے ہیں کہ انہیں ساحرہ کاظمی نے فلم کی کیسٹ دی اور کہا کہ اداکاری کرنے سے پہلے ڈسٹن ہوفمین کی اداکاری دیکھ لو۔ جنہوں نے مرد اور عورت کا کردار بیک وقت ادا کیا تھا لیکن معین نے جان بوجھ کر یہ فلم نہیں دیکھی۔ انہیں یہ ڈر تھا کہ اگر فلم دیکھ لی تو کہیں ان کی اداکاری میں ڈسٹن ہوفمین کی چھاپ نہ آ جائے۔
’روزی‘ کے نشر ہونے کے بعد جب انہوں نے اس فلم کا دیدار کیا تو برملا کہتے کہ ڈسٹن ہوفمین نے مرد والا کردار بہتر کیا جبکہ انہوں نے خاتون والا۔