سپریم کورٹ کے ستائیسویں چیف جسٹس جسٹس گلزار احمد پر تفصیلی نظر ڈالنے سے قبل ایک نظر گذشتہ تین سالوں کے دوران مختلف مقدمات میں ان کے ریمارکس پر ڈالتے ہیں۔
’چین میں تو کرپٹ لوگوں کو گولی مار دی جاتی ہے۔‘
’کراچی کی 50 فیصد زمین سویلین ایجنسیز کے قبضے میں نہیں ہے۔‘
’فوج کو دی گئی سرکاری زمین کو کمرشل مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔‘
’دفاعی اداروں کا کیا کام ہے کہ وہ شادی ہال اور سینیما چلائیں؟‘
’سندھ کرپشن میں ڈوبا ہوا ہے۔‘
’خیبرپختونخوا حکومت جلد دیوالیہ ہو جائے گی‘
’لڑنے جھگڑنے والے اہلکاروں کو واہگہ بارڈر پر تعینات نہ کیا جائے۔‘
’نجی تعلیمی اداروں کو یا تو قومیا دینا چاہیے یا بند کر دینا چاہیے۔‘
ان بیانات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگلے دو سال کے لیے اعلیٰ ترین جج بنے والے جسٹس گلزار احمد بےخوف جج ہیں۔ جس دوران چیف جسٹس گلزار احمد ملک کے اعلیٰ ترین جج کے اہم اور نازک ترین عہدے پر براجمان ہوئے ہیں یہ وقت ملک کی عدلیہ اور خود ملک کے لیے خاصا کٹھن ہے۔ جاتے جاتے سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ تو عدالت عظمیٰ کے خلاف ایک ’مکروہ مہم‘ کا ذکر کر چلے گئے لیکن اس مہم کا مقابلہ جسٹس گلزار کو ہی کرنا ہے۔
اگر ان کا ٹریک ریکارڈ دیکھا جائے تو انہوں نے بطور سپریم کورٹ جج وہ کام کیے ہیں جن کا تصور بھی محال تھا۔ مثلاً کراچی کو ہی لے لیجیے۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کو ٹھیک کرنے کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے کوئی سیاسی جماعت تیار نہیں۔ باقی ادارے بھی اس شہر کی زمین ہڑپ کرنے کے تو درپے ہیں لیکن اس شہر کی حالت بہتر بنانے کے لیے کوئی سنجیدہ کام نہیں ہوا۔ ایسے میں کراچی میں پلے بڑھے جسٹس گلزار نے اپنے شہر کا مقدمہ نہ صرف سنا بلکہ ایمپریس مارکیٹ اور ریلوے لائن کے اطراف میں تجاوزات کو ہٹوایا بھی۔ نجی سکولوں کی جانب سے فیسوں میں ہوشربا اضافے کو روکا بلکہ نجی تعلیمی اداروں کو پابند بنایا کہ وہ قانون کی پابندی کریں۔
اب جو سب سے بڑا چیلنج چیف جسٹس گلزار کے روبرو آنے والا ہے وہ سابق فوجی صدر جنرل ریٹائیرڈ پرویز مشرف کو سنائی جانے والی سزائے موت کا ہے۔ دوسرا بڑا چیلنج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے مقدمے کا ہے جس پر وکلا تنظیموں نے سخت موقف اپنایا ہوا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک چیز جو چیف جسٹس گلزار کو اپنے پیش رو سے مختلف رکھے گی وہ سو موٹو کا استعمال ہے۔ یہ رجحان جسٹس آصف سعید کھوسہ کے دور میں متروک ہوا لیکن نئے چیف جسٹس کے دور میں اس کی واپسی ہو سکتی ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ جوڈیشل ایکٹیویزم کا دور پھر سے آ گیا ہے، تو آپ درست اندازہ لگا رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ جسٹس گلزار کا دور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور افتخار چوہدری والا ہو گا یا نہیں۔
ماضی میں جب بھی کوئی چیف جسٹس زیادہ متحرک ہوئے تو ان کی اس وقت کی حکومت سے محاذ آرائی ہوئی۔ سو موٹو اور حکومت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
نوے کی دہائی میں چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے ساتھ پہلے پیپلز پارٹی اور بعد میں مسلم لیگ ن نے محاذ آرائی کی تھی۔ نتیجہ ایک حکومت برطرف اور ایک چیف جسٹس برطرف ہونے کی صورت میں نکلا۔
جسٹس سجاد علی شاہ کے بعد جنرل پرویز مشرف کی آمریت کا پہلا شکار سابق چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی بنے اور ان کو غیرقانونی طور پر سبکدوش کر دیا گیا۔ اس پر ستم یہ کہ مرضی کے منتخب ججوں کو بھی ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد انہی کے گھروں میں محصور کرنا پڑا۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی پیپلز پارٹی حکومت سے کشیدگی پیدا ہوئی اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو سبکدوش ہونا پڑا۔ افتخار چوہدری کے بعد کی عدلیہ سابق حکومت کے خلاف متحرک ہوئی اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کو استعفیٰ دینا پڑا۔
اب حالات زیادہ خراب ہیں اور حکومت ناتجربہ کار ہے جبکہ اسٹیبلشمنٹ ناراض۔ ایسے میں عدلیہ کو چیف جسٹس گلزار کہاں تک لے جا سکتے ہیں یہ تو وقت بھی ڈر کے مارے بتانے سے قاصر ہے کہ اگر توہین عدالت سے بچ گئے تو توہین اسٹیبلشمنٹ سے کیسے بچیں گے؟