جسٹس گلزار احمد نے بطور چیف جسٹس آف پاکستان حلف اٹھا لیا ہے وہ سپریم کورٹ کے 27ویں چیف جسٹس ہیں اور فروری 2022 تک اس عہدے پر فائز رہیں گے۔
اسلام آباد میں سنیچر کو حلف برداری کی تقریب میں صدر پاکستان عارف علوی نے جسٹس گلزار سے حلف لیا۔
جسٹس گلزار احمد کے متوقع دور میں عدلیہ میں کیا تبدیلیاں آ سکتی ہیں، یہ جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے صحافی و تجزیہ کار مبشر زیدی سے بات کی۔
مبشر زیدی سے پوچھا گیا کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کے دور میں عدلیہ کا جو ٹرینڈ رہا کیا وہ جسٹس گلزار کے دور میں بھی جاری رہے گا تو ان کا کہنا تھا کہ جسٹس گلزار کے دور میں لوگ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کو بھول جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ عین ممکن ہے کہ جسٹس گلزار کے پہلے ایک دو مہینوں میں خاموشی نظر آئے مگر اس کے بعد سو موٹو نوٹسز کا سلسلہ چل نکلے گا۔
’اس بار جو ’جوڈیشل ایکٹیویزم‘ آئے گا شاید وہ حکومت، فوج اور سیاستدانوں سب کے لیے کنٹرول کرنا مشکل ہو۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مبشر زیدی نے کہا کہ جسٹس گلزار احمد کا تعلق کراچی سے ہے اور کراچی میں تجاوزات کے حوالے سے ان کے فیصلے کافی سخت تھے۔ مبشر زیدی کے بقول اس کیس میں جسٹس گلزار نے کہا تھا کہ کراچی کی 50 فیصد زمین سویلین ایجنسیز کے ہاتھ میں نہیں ہے اور انہوں نے فوج کو یہ بھی حکم دیا تھا کہ اپنے سینیما اور شادی ہال ہٹائیں۔
’جسٹس گلزار نے پوچھا تھا کہ فوج کو کس نے اختیار دیا کہ فوج کو دی گئی زمین کا کمرشل استعمال کریں؟‘
مبشر زیدی کا کہنا تھا کہ انہیں لگتا ہے کہ جسٹس گلزار کے آنے کے بعد اداروں کے درمیان تناؤ مزید بڑھے گا۔
جسٹس گلزار احمد
سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس، جسٹس گلزار احمد کا تعلق کراچی ہے۔ وہ دو فروری 1957 میں ایڈووکیٹ نور محمد کے گھر پیدا ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم گلستان سکول سے حاصل کی اور ایس ایم لا کالج سے قانون کی ڈگری لی۔
جسٹس گلزار احمد 1986 میں ہائی کورٹ کے وکیل کے طور پر رجسٹر ہوئے اور دو برس بعد ہی ان کی سپریم کورٹ میں انرولمنٹ ہو گئی تھی۔
وہ 2002 میں سندھ ہائی کورٹ کے جج بنے، اس سے دو سال قبل جنرل پرویز مشرف کے عبوری آئینی حکم کے تحت سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے کئی ججوں نے حلف اٹھا لیا تھا۔ پانچ برس بعد 2007 میں دوسری بار عبوری آئینی حکم کے تحت حلف کا حکم جاری کیا گیا لیکن انہوں نے حلف اٹھانے سے انکار کر دیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بننے کے بعد سندھ ہائی کورٹ میں ججوں کی بحالی کا آغاز ہوا۔ اس موقعے پر جسٹس گلزار احمد دوسرے مرحلے میں دیگر ججوں کے ساتھ بحال ہو گئے۔ انہیں 2011 میں سپریم کورٹ میں تعینات کیا گیا۔
جسٹس گلزار احمد پانامہ لیکس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کو نااہل قرار دینے والے بینچ کا حصہ تھے۔
انہوں نے اختلافی نوٹ لکھا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’نوازشریف عوامی عہدے پر تھے۔ ان کی ذمہ داری تھی کہ وہ لندن میں واقع فلیٹوں سے متعلق عوام اور عدالت کو حقائق سے آگاہ کرتے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔‘