رانا ثنا اللہ کی درخواست ضمانت منظور

انسداد منشیات فورس (اے این ایف) نے رانا ثنا اللہ کو 2 جولائی 2019 کو فیصل آباد سے لاہور جاتے ہوئے گرفتار کیا تھا اور اے این ایف نے دعویٰ کیا تھا کہ رانا ثنا کی گاڑی سے بھاری مقدار میں منشیات برآمد کی گئی۔

قبل ازیں رانا ثنا اللہ کی جانب سے گھر کا کھانا منگوانے کی استدعا بھی مسترد ہو چکی ہے۔(اے ایف پی)

لاہور ہائی کورٹ نے منگل کو رانا ثنا اللہ کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دے دیا۔ منشیات برآمدگی کیس میں مسلم لیگ نواز کے صوبائی صدر رانا ثنا اللہ کی یہ ضمانت لاہور ہائی کورٹ نے دس دس لاکھ کے مچلکوں کے عوض منظور کی۔ 

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس چودھری مشتاق احمد نے رانا ثنااللہ کی درخواست ضمانت کی سماعت کی۔ اس دوران سابق وزیر قانون کے وکیل نے مؤقف اختیارکیا کہ ان کے موکل حکومت کے خلاف سخت تنقید کرتے رہے ہیں جس کی وجہ سے انہیں اس جھوٹے مقدمے کے ذریعے انتقامی سیاست کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وقوعے کی ایف آئی آر تاخیر سے درج کی گئی جو مقدمے کو مشکوک ثابت کرتی ہے جب کہ ایف آئی آر میں رانا ثنااللہ کی گاڑی سے مبینہ طور پر ملنے والی ہیروئن کا وزن 21 کلو گرام لکھا گیا جبکہ بعد میں اس کا وزن پندرہ کلو گرام ظاہر کیا گیا۔

قبل ازیں انسداد منشیات کی خصوصی عدالت نے مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ کے جوڈیشل ریمانڈ میں مزید 14 روز کی توسیع کی تھی جس کے بعد رانا ثنا اللہ نے 4 جنوری 2020 کو دوبارہ پیش ہونا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انسداد منشیات فورس (اے این ایف) نے رانا ثنا اللہ کو 2 جولائی 2019 کو فیصل آباد سے لاہور جاتے ہوئے گرفتار کیا تھا۔ اس وقت اے این ایف نے دعویٰ کیا تھا کہ رانا ثنا کی گاڑی سے بھاری مقدار میں منشیات برآمد ہوئی تھی۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ کو پنجاب کے علاقے سکھیکھی کے نزدیک اسلام آباد-لاہور موٹروے سے گرفتار کیا گیا تھا۔ 

گرفتاری کے بعد وزیر مملکت برائے انسداد منشیات شہریار آفریدی کے ہمراہ پریس کانفرنس میں ڈی جی اے این ایف کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے رانا ثنا اللہ کی گاڑی کی تین ہفتوں سے نگرانی جاری تھی، تاہم ’کئی بار فیملی کے ساتھ ہونے کی وجہ سے ان کو نہیں روکا گیا۔‘

اس موقعے پر شہریار آفریدی نے یہ بھی کہا تھا کہ رانا ثنا اللہ بین الاقوامی گروہ کا حصہ تھے۔ پریس کانفرنس کے دوران جب صحافیوں نے رانا ثنا اللہ کے ’رنگے ہاتھوں‘ پکڑے جانے کے واقعے کی تصاویر اور ویڈیوز کے بارے میں سوال کیا تو ڈی جی اے این ایف نے کہا تھا : ’یہ کوئی فلم تو بن نہیں رہی تھی کہ ہم بار بار ٹیک لیتے اور ان سے بریف کیس پکڑنے کو کہتے تاکہ ہم ویڈیو بنا سکیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ رانا ثنا اللہ کے محافظوں کی موجودگی میں ویڈیوز اور تصاویر بنانا خطرناک ثابت ہو سکتا تھا۔

گرفتاری کے بعد رانا ثنا اللہ کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا جہاں انہیں 14 روز کے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجا گیا تھا، جس میں کئی بار توسیع ہو چکی ہے۔

قبل ازیں عدالت نے رانا ثنا اللہ کی جانب سے گھر کا کھانا منگوانے کی استدعا بھی مسترد کر دی تھی۔

اس سے پہلے رانا ثنااللہ نے ضمانت پر رہائی کے لیے لاہور کی انسداد منشیات عدالت میں درخواست دائر کی تھی جو مسترد ہو چکی تھی  جس کے بعد انہوں نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

خیال رہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ کو 15 کلو گرام ہیروئن سمگل کرنے کے الزام میں گرفتاری کے بعد گذشتہ منگل کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا تھا جس کے بعد انہیں 14 دن کے لیے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل منتقل کر دیا گیا۔

رانا ثنااللہ نے صورت حال سے مایوس ہوکر آرمی چیف قمر جاوید باجوہ سے اس معاملے کا نوٹس لینے کا مطالبہ بھی کرچکے جب کہ انہوں نے جوڈیشل کمیشن بنا کر حقائق سامنے لانے کی پیش کش بھی کی تھی۔
روایتی ثبوت کہاں ہیں؟
رانا ثنااللہ کے وکیل فرحاد شاہ کے مطابق رانا ثنااللہ پر لگائے گئے تمام الزامات بے بنیاد اور سیاسی ہیں کیوں کہ ابھی تک کوئی ایسا روایتی ثبوت بھی سامنے نہیں آیا جوانسداد منشیات فورس عمومی طور پرمنشیات کے ساتھ پکڑے گئے ملزمان کی منشیات کے ساتھ تصاویر سامنے لاتا ہے۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’عدالتوں میں اے این ایف نے تاخیری حربے استعمال کیے۔ انہوں نے کہا ہم نے سی سی ٹی وی ویڈیو بھی پیش کی ہے جس میں ان کی گرفتاری اور منشیات کی برآمدگی میں تضاد واضح ہے۔ اس کیس کی سماعت کرنے والے سپیشل جج مسعود ارشد کو دوران سماعت 28 اگست کو وٹس ایپ پر نوٹیفکیشن بھجوا کر تبدیل کر دیا تھا جس پر کئی سوالات اٹھائے گئے۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان