پاکستان کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن کی قیادت سمیت دیگر رہنما اس وقت کڑے احتساب کا سامنا کر رہے ہیں، خصوصاً سابق صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ کے خلاف منشیات کیس پر کارروائی جاری ہے۔
اس کیس میں مبینہ طور پر حکومتی موقف اور اینٹی نارکوٹکس فورس (اے این ایف) کی کارروائی میں کئی اختلافات دیکھنے میں آئے ہیں۔
تجزیہ نگاروں کی رائے میں پہلے دن سے حکومتی وزراء کے بیانات اور حقائق میں واضح فرق دکھائی دیتا ہے۔
عدالتی حکم کے بعد بھی اب تک انسداد منشیات فورس کی جانب سے نہ تو ثبوت پیش کیے گئے اور نہ ہی مقدمے کاچالان سامنے لایا گیا۔
ملزم رانا ثنا اللہ نے صورتحال سے مایوس ہوکر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے اس معاملے کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا اور جوڈیشل کمیشن بنا کر حقائق سامنے لانے کی پیش کش بھی کی ہے۔
عدالت میں کیا ہوا؟
وکیل صفائی فرہاد علی شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ رکن قومی اسمبلی رانا ثنا اللہ کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ مکمل ہونے پر منگل کے روز اے این ایف کے سپیشل مجسٹریٹ احمد وقاص کے روبروپیش کیا گیا۔
عدالت نے اے این ایف حکام سے مقدمے کی اصل فائل دریافت کی تو انہوں نے کہا فائل اس وقت موجود نہیں جس پر عدالت نے اصل فائل فراہم کرنے کے لیے انہیں دو گھنٹے کا وقت دیا۔
مگر اے این ایف حکام اصل فائل پیش نہ کرسکے اور فوٹوکاپی جمع کرائی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عدالت کو بتایا گیا کہ اصل فائل اینٹی نارکوٹکس فورس کے سپیشل انویسٹی گیشن سیل کے پاس ہے، جس پر عدالت نے کہا کہ نہ ثبوت پیش کیے گئے، نہ چالان پیش ہوا اور نہ ہی مقدمے کی اصل فائل جمع کرائی جارہی ہے تو کیس کی کارروائی آگے کیسے بڑھائیں؟
عدالت نے 29 جولائی کو اصل فائل اور چالان پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔
رانا ثنا اللہ نے عدالت کو بتایا کہ اے این ایف تفتیشی ٹیم نے ان کے جو بیانات قلمبند کیے اور جو الزامات ان پر عائد ہوئے اس کی تحریری کاپی بھی ان کو فراہم نہیں کی گئی۔ وہ جیل میں پرہیزی کھانے کی سہولت بھی عدالتی حکم پر حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
فرہاد شاہ کے مطابق ’رانا ثنا اللہ پر لگائے گئے تمام الزامات بے بنیاد اور سیاسی ہیں کیوں کہ ابھی تک کوئی ایسا روایتی ثبوت بھی سامنے نہیں آیا جو انسداد منشیات فورس عمومی طور پر پیش کرتی ہے۔‘
اے این ایف منشیات کے ساتھ پکڑے گئے ملزمان کی تصاویر بطور ثبوت عموما سامنے لاتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’عدالتوں میں ریکارڈ پیش نہ کرکے معاملے کو طول دیا جارہا ہے۔‘ انہوں نے بتایا کہ ’رانا ثنا اللہ کی درخواست ضمانت اس لیے دائر نہیں کی گئی تاکہ چالان پیش ہونے پر پہلے الزامات کا جائزہ لیا جاسکے جبکہ چالان اور مقدمے کی اصل فائل جمع ہونے کے بعد کیس کی سماعت سپیشل جج اے این ایف مسعود ارشد کی عدالت میں ہوگی۔‘
سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے، رانا ثنا
رانا ثنا اللہ نے پیشی کے موقع پر میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ’اے این ایف کو استعمال کرکے انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اے این ایف میں پاک فوج کے حاضر سروس افسران تعینات ہیں اس لیے آرمی چیف معاملے کا نوٹس لیں اور اس ادارے کو متنازع ہونے سے بچائیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جب بھارت سے کشیدگی کے دوران ڈی جی آئی ایس پی آر پارلیمنٹ آئے تو انہوں نے بریفنگ میں کہا تھا کہ سچائی سے ہی کامیابی حاصل ہوتی ہے، اس وقت انہوں نے اے این ایف کی اس بے بنیاد کارروائی سے متعلق آرمی چیف کو سچ کیوں نہیں بتایا؟‘
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ’اس واقعے پر بھی ماڈل ٹاؤن کی طرز پر جوڈیشل کمیشن بنایا جائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے۔‘
اس موقع پر رانا ثنا اللہ نے فون پر اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف اور مریم نواز سے بھی بات کی اور اپنی قیادت کو بتایا کہ ’ان کے ساتھ جبر کیا جارہا ہے لیکن وہ نہ جھکے ہیں اور نہ جھکیں گے بلکہ اپنی قیادت کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہیں اور کھڑے رہیں گے۔‘
حکومتی موقف:
وزیر مملکت برائے انسداد منشیات شہریار آفریدی نے منگل کے روز پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’رانا ثنا اللہ کو رنگے ہاتھوں منشیات کی بھاری مقدار سمیت حراست میں لیا گیا۔ نوجوان نسل کے خون میں زہر ملانے والوں کو معاف نہیں کریں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ رانا ثنا اللہ کو تین ماہ تک پیچھا کرکے اُس وقت پکڑا گیا جب منشیات ان کی گاڑی میں موجود تھیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’اے این ایف کے پاس ویڈیو اور دستاویزی، تمام ثبوت موجود ہیں جو وقت آنے پر سامنے لائے جائیں گے۔ رانا ثنا اللہ اپنی بے گناہی عدالت میں ثابت کریں کیوں کہ ان کے خلاف کارروائی قانونی طور پر کی جا رہی ہے۔‘
شہریار آفریدی نے مزید کہا کہ ’یہ کارروائی ملک کے اہم ترین ادارے کی جانب سے عمل میں لائی گئی ہے۔ اپوزیشن چیخیں مارنے کی بجائے قانون کا سامنا کرے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اب نیا پاکستان ہے یہاں دھونس دھمکیوں سے جرائم پر پردہ نہیں ڈالا جا سکتا۔ جس نے جو کیا اس کی سزا بھگتنا پڑے گی۔‘
واضح رہے کہ یکم جولائی کو اے این ایف نے سابق صوبائی وزیر قانون کو فیصل آباد سے لاہور آتے ہوئے موٹر وے پر حراست میں لے کر ان کی گاڑی سے 15 کلو ہیروئن برآمد ہونے کا دعویٰ کیا تھا، لیکن انسداد منشیات کے وفاقی ادارے کی جانب سے ابھی تک نہ تو واقعے کی کوئی ویڈیو سامنے آئی ہے اور نہ ہی منشیات برآمدگی کا کوئی دستاویزی ثبوت سامنے آیا ہے۔
مسلم لیگ ن کی جانب سے پنجاب اسمبلی میں بھی قرارداد پیش کی گئی جس میں رانا ثنا اللہ کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیے جانے اور ان کے خلاف کیس کو جھوٹا قرار دیا گیا ہے۔
دوسری جانب رانا ثنا اللہ کی اہلیہ نے اپنے خاوند کی رہائی کے لیے اقوام متحدہ کے شعبہ تحفظ انسانی حقوق کو خط بھی لکھا ہے۔