تھائی لینڈ کی ایک عدالت نے تین مسلمان شہریوں کو گولیاں مار کر ہلاک کرنے والے دو فوجیوں پر قتل کی دفعات کے تحت فرد جرم عائد کر دی۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس غیر معمولی فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ انصاف کے لیے یہ فیصلہ بے مثال ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق عدالت کا یہ فیصلہ ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب تھائی فوج نے گذشتہ ہفتے ہی اس واقعے پر افسوس کا اظہار کیا تھا جس میں فوجیوں نے ملک کے جنوبی پہاڑی سلسلے پر خوراک کی تلاش کرنے والے تین غیر مسلح مسلمان شہریوں کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
فوج کا کہنا تھا کہ انہوں نے سورش ذدہ خطے میں عسکریت پسندوں کی موجودگی کے شبے میں غلطی سے ان افراد کو نشانہ بنایا تھا۔
بدھ مت اکثریتی ملک کے جنوبی خطے میں مالے نسل کے مسلمان باغی خودمختاری حاصل کرنے کے لیے گذشتہ 15 سالوں سے مسلح تحریک چلا رہے ہیں اور تھائی فورسز اس بغاوت کو کچلنے طاقت کا استعمال کرتی رہی ہے۔
اس مسلح تحریک کے دوران اب تک دونوں مذاہب سے تعلق رکھنے والے سات ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے۔
تھائی لینڈ میں عام طور پر ایسے واقعات کی تحقیقات نہیں کی جاتی تاہم جنوبی صوبے ناریتھی وت کے پولیس چیف کا کہنا تھا کہ گذشتہ سوموار کو اس واقعے کے بعد دو سپاہیوں نے خود کو حکام کے حوالے کر دیا تھا۔
تھائی فوج کے میجر جنرل نارین بوسامن نے اے ایف پی کو بتایا کہ تحقیقات کے بعد دونوں فوجیوں پر قتل کی دفعات کے تحت فرد جرم عائد کر دی گئی ہیں تاہم ان کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا: ’ہم حاصل ہونے والی معلومات کے دونوں پہلوں کا بغور جائزہ لیں گے تاکہ ہر ایک کے لیے انصاف کے تقاضے پورے کیے جا سکیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تھائی لینڈ کے جنوبی سرحدی علاقے میں فوجی بھاری تعداد میں تعینات ہیں جہاں ان کی مسلح باغیوں سے جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
تازہ ترین واقعے میں تین مسلمان شہریوں کی لاشیں پہاڑی علاقے سے بازیاب کی گئیں جو گھنے جنگل کے باعث باغیوں کا ٹھکانا سمجھا جاتا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) کے مطابق وہاں اب ایک سائن بورڈ آویزاں کر دیا گیا ہے جس میں دیہاتیوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ حکام ’غلط فہمی‘ میں انہیں نشانہ بنا سکتے ہیں۔
انسانی حقوق کے اس گروپ نے کہا کہ خطے میں اس سے قبل فوجیوں پر فرد جرم عائد ہونے کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
ایچ آر ڈبلیو کے سینئر محقق سنائی فاسوک نے کہا: ’(اس پیش رفت کے بعد) اب انصاف کی تھوڑی بہت امید پیدا ہوئی ہے لیکن (انسانی حقوق کی بحالی کے لیے) اب بھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا: ’ہمیں یہ تک نہیں معلوم کہ شوٹنگ میں کتنے فوجی شامل تھے۔‘
تھائی فوجیوں پر فرد جرم عائد ہونے کا یہ غیرمعمولی واقعہ ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب ایک ماہ قبل عبداللہ ایسومسر نامی ایک مسلمان شہری تھائی حراستی مرکز میں تفتیش کے دوران کوما میں جانے کے بعد ہلاک ہو گیا تھا۔
اس واقعے نے ملک میں ہلچل مچا دی تھی اور متنازع فوجی کارروائیوں کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ زور پکڑ گیا تھا حالانکہ اس سے قبل ایسے واقعات کبھی سرخیوں میں نہیں آتے تھے۔