چھبیس دسمبر کی رات کراچی کے علاقے گلشنِ معمار میں گھر کے باہر کھیلتی ہوئی پانچ سالہ عاصمہ کو ایک موٹر سائیکل سوار نے اغوا کرلیا۔
عاصمہ کی گمشدگی کا احساس ہوتے ہی اہل خانہ نے فوراً اس کی تلاش شروع کردی۔ پولیس کو اطلاع کرنے سمیت فیس بک پر بھی عاصمہ کے حوالے سےمعلومات شیئر ہونے لگیں۔
کچھ گھنٹوں بعد عاصمہ کے والد موسیٰ خان کو معلوم ہوا کہ کراچی کے علاقے بہادرآباد میں ایک مشکوک شخص کے قبضے سے ملنے والی بچی کے والدین کو تلاش کیا جارہا ہے اور سوشل میڈیا پر بچی کی گمشدگی کے حوالے سے ایک پوسٹ دیکھی گئی جس میں موسیٰ کا موبائل نمبر موجود تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پانچ سالہ عاصمہ کے والد موسیٰ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ’شام پانچ بجے کے قریب مجھے عاصمہ کے لاپتہ ہونے کی اطلاع ملی۔ اس وقت میں گھر پر موجود نہیں تھا، گھر آنے کے بعد فوری طور پر ہم نے گلشنِ معمار تھانے میں ایف آئی آر درج کروائی اور محلے والوں کے گھروں میں لگے سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج کی مدد سے پتہ چلا کہ عاصمہ کو ایک نامعلوم موٹر سائیکل سوار نے اغوا کیا ہے۔‘
موسیٰ نے مزید بتایا ’ہم نے پولیس کو اطلاع کرنے کے ساتھ ساتھ فوراً فیس بک کے مختلف گروپس پر عاصمہ کی تصاویر، گھر کا پتہ اور اپنا موبائل نمبرشیئر کر دیا تھا تاکہ کس کو اطلاع ملے تو فوراً ہم سے رابطہ کرے۔ رات 12 بجے کے قریب مجھے فیروزآباد تھانے سے کال آئی اور بتایا گیا کہ بچی اس وقت تھانے میں ہے اور ہم آکر اسے لے جائیں۔‘
عاصمہ کو کیسے بازیاب کیا گیا؟
عاصمہ کو کراچی کے علاقے سندھی مسلم سوسائٹی میں واقع ایک ریستوران میں عبدالقوی نامی نوجوان اور ان کے دوستوں نے بازیاب کیا۔ عبدالقوی ڈیفنس فیز سکس میں واقع ایک کمپنی میں ملازم اور ٹیوشن پڑھاتے ہیں۔
عبدالقوی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا’اس دن ٹیوشن پڑھانے کے بعد میں اپنے دوستوں کے ساتھ سندھی مسلم میں واقع ریستوراں میں بیٹھا تھا۔ کافی دیر سے ہم ساتھ والی ٹیبل پر بیٹھے ایک شخص اور اس کے ساتھ موجودہ بچی کو نوٹ کر رہے تھے۔ بچی کی شکل اس آدمی سے بالکل مختلف تھی اوروہ آدمی مسلسل فون پر بات کر رہا تھا۔‘
’ہم نے اس کی کچھ باتیں سنیں جس میں وہ کسی سے فون پر پوچھ رہا تھا کہ بچی کو کہاں چھوڑنا ہے اور اپنی لوکیشن بھی بتا رہا تھا، یہ سب مجھے کافی مشکوک لگا۔‘
’فون پر اس شخص کی گفتگو سننے کے بعد ہم نے اس سے جاکر پوچھا کہ یہ بچی کون ہے تو اس نے خود کو بچی کا والد بتایا۔ جب ہم نے بچی سے اس بات کی تصدیق کی تو اس نے نفی میں سر ہلایا اور ہمارے پوچھنے پر اپنا نام عاصمہ اور والد کا نام موسیٰ بتایا، جس پر آدمی نے اپنی بات بدل دی اور کہا کہ اصل میں یہ میری بہن ہے اور اس کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں۔‘
’ہم نے اس سے کافی دیر تک پوچھ گچھ کی اور ڈرایا دھمکایا جس پر اس نے بتایا کہ اس نے بچی کو سہراب گوٹھ سے اغوا کیا ہے۔‘
عبدالقوی کے مطابق انہوں نے فوراً فیروزآباد تھانے میں پولیس کو اطلاع دی اور بچی کی ویڈیو مختلف سوشل میڈیا سائٹس اور فیس بک کے کئی گروپس میں شیئر کردی، فیس بک کی پوسٹ پر انہیں عاصمہ کے گھر والوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر ڈالے گئے پیغامات کی اطلاع ملی اور معمار سے ان کے ایک دوست نے بھی فون پر اغوا کی تفصیل بتائی۔
ان کا کہنا تھا ’تقریباً رات 12 بجے کے قریب بچی کے والدین کو فیروزآباد تھانے بلایا گیا جہاں انہوں نے مختلف تصاویر اور سی سی ٹی وی فوٹیجز ہمیں اور پولیس کو دکھائیں اور ننھی عاصمہ کو گھر لے گئے۔ ‘
اغوا کار کون تھا؟
ملزم کے حوالےسے پولیس کی تحقیقات جاری ہیں لیکن ابتدائی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ملزم موسیٰ کا محلے دار ہے۔
تحقیقاتی افسر غلام محمد کے مطابق ملزم کا پانچ روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کرلیا گیا ہے۔ ملزم پیشے کے اعتبار سے انجینیئر ہے لیکن دو سال سے بےروزگار ہے۔
پولیس کے مطابق ملزم کا ذہنی توازن بھی ٹھیک نہیں جس کے باعث کافی عرصے تک اس کا علاج بھی جاری رہا۔ ابتدائی پوچھ گچھ میں ملزم نے بتایا کہ بچی اس کی دوست ہے اور وہ اسے گھمانے لے گیا تھا۔