سندھ حکومت نے وادی سندھ کی تہذیب کے ساڑھے چار ہزار سال قدیم شہر موئن جو دڑو کا پرانا اور تاریخی نام ’موہن جو دڑو‘ بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
انگریزی میں تو اسے ’موہن جو دڑو‘ ہی لکھا جاتا ہے مگر اردو اور دیگر زبانوں میں ابھی تک موئن جو دڑو ہی رائج ہے، جو سندھی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں ’مُردوں کا ٹیلہ۔‘
پاکستان پیپلز پاٹی (پی پی پی) کے رکن سندھ اسمبلی قاسم سراج سومرو نے موئن جو دڑو کا تاریخی نام موہن جو دڑو سرکاری طور پر بحال کرنے کے حوالے سے قرارداد بدھ سے شروع ہونے والے سندھ اسمبلی کے اجلاس میں پیش کریں گے، جس کی متفقہ طور پر منظوری کا امکان ہے۔
قاسم سراج سومرو نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا: ’عظیم تہذیب کے اس زبردست شہر کو مُردوں کے شہر سے پُکارنا تاریخ کے ساتھ زیادتی ہے۔ صدیوں پہلے اس شہر میں تعلیم کا نظام تھا۔ اگر اس شہر کے فن تعمیر، منصوبہ بندی اور رہن سہن کی نفاست کو دیکھیں تو وہ لوگ آج کے جدید دور کے لوگوں کی نسبت شعوری طور پر زیادہ زندہ دل تھے، ان کے عظیم شہر کو مُردوں کا ٹیلہ کہنا سراسر غلط اور اسے تبدیل کرکے تاریخی نام بحال کرنا بہت ضروری ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ بدھ مت کے دور میں اس شہر کی تعمیر ایک شخص موہن کے نام پر ٹیلے پر ہونے کے باعث موہن جو دڑو کا نام دیا گیا تھا۔
وادی سندھ کی تہذیب کے ڈھائی ہزار قبل مسیح میں بسنے والے سب سے بڑے اور منصوبہ بندی کے ساتھ تعمیر کیے گئے موئن جو دڑو کی کھُدائی کو 2020 میں ایک سو سال مکمل ہوگئے ہیں، مگر تاحال اس قدیم شہر سے ملنے والی اشیا پر لکھی تحریر کو نہیں پڑھا جاسکا، جس کے باعث اس پراسرار شہر سے متعلق بہت سے حقائق کے بارے میں آج تک پتہ نہیں چل سکا۔
محمکہ ثقافت سندھ کی جانب سے اس قدیم زبان کو سمجھنے کے لیے مختلف ممالک سے ماہر آثار قدیمہ کے ماہرین کو نو جنوری سے شروع ہونے والی عالمی کانفرنس میں مدعو کیا گیا ہے۔
قاسم سومرو کے مطابق: ’اس شہر کی کئی سال تک کھُدائی کے بعد 1931 میں سر جان مارشل نے شہر کی تاریخ پر ’موہن جو دڑو اور انڈس سویلائزیشن‘ نامی کتاب لکھی، اس میں بھی اس شہر کا نام موہن جو دڑو ہی لکھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1973 میں اس تہذیب پر ایک عالمی کانفرنس بلائی تھی جس کے دعوت نامے پر بھی موہن جو دڑو کا نام درج کیا گیا تھا۔ بعد میں ضیاء الحق کی آمریت کے دور میں اس تہذیب کو غیر مسلموں سے منسوب کرکے جان بوجھ کر اس کا تاریخی نام بگاڑا گیا۔ اب تاریخ کو درست کرنے کا وقت آگیا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ سندھ شروع سے مختلف مذاہب کے باجود تہذیب میں مشترکہ اور ایک رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس شہر کے قدیم نام کی بحالی سے دنیا کو ایک پیغام جائے گا کہ سندھ صدیوں سے آج تک مختلف مذاہب کے باجود تہذیب، تمدن اور ثقافت کے لحاظ سے ایک ہے۔
16ویں صدی کے مغل بادشاہ اکبر اور ہندو شہزادی جودھا کے بارے میں 2008 میں فلم ’جودھا اکبر‘ فلم بنانے والے معروف ہدایت کار آشوتوش گواریکر کی جانب سے 2016 میں بنائی گئی فلم کا نام بھی ’موہن جو دڑو‘ رکھا گیا تھا۔ اس فلم پر مورخین، برصغیر کی قدیم تہذیب سے واقف ماہرین اور سندھ کے عوام نے یہ کہہ کر شدید تنقید کی تھی کہ اس فلم میں اس دور کی تہذیب و ثقافت کو غلط انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
کراچی کے سینیئر صحافی قاضی آصف جن کا آبائی گاؤں موہن جو دڑو سے متصل ڈوکری ہے، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’سر جان مارشل اور دیگر ماہرین آثار قدیمہ کی تحقیق کے مطابق اس قدیم شہر کی آبادی 40 ہزار کے قریب تھی مگر تہذیب کے ان عظیم آثاروں کی کھدائی کے دوران ایک درجن کے قریب انسانی ڈھانچے ملے تھے، اس شہر کو مُردوں کا ٹیلہ کہنا غلط ہے۔ موئن جو دڑو نام کا کوئی مطلب ہی نہیں ہے۔ سندھ حکومت کی جانب سے اس شہر کے تاریخی نام کو بحال کرنے کا فیصلہ خوش آئند اور ایک تاریخی ہے جس کو سندھ کے عوام خوش آمدید کریں گے۔‘
بقول قاضی آصف: ’اس شہر کا تاریخی نام موہن جو دڑو تھا جسے دیگر مذاہب سے منسوب ہونے کے باعث بگاڑ دیا گیا۔ آج ساڑھے چار ہزار سال بعد بھی موہن جو دڑو کے اطراف میں واقع گاؤں کے لوگ اس شہر کو موہن یا موہیں جو دڑو کے نام سے پکارتے ہیں۔سندھی زبان اور خاص طور پر لاڑکانہ میں لوگ اس شہر کو موہن جو دڑو ہی لکھتے اور پُکارتے ہیں۔‘
اسمبلی سے قرارداد کی منظوری کے بعد سرکاری طور پر درست نام موہن جو دڑو کا ایک نوٹیفکیشن جاری کیا جائے گا، جس کے بعد نہ صرف راستوں پر نصب سائن بورڈ پر نیا نام لکھا جائے گا بلکہ سرکاری خط و کتابت اور اخبارات میں بھی اس شہر کو تاریخی نام ’موہن جو دڑو‘ پکارا اور لکھا جائے گا۔