دریائے سندھ سے منسلک وادی سندھ کی تہذیب کے ڈھائی ہزار قبل مسیح کے عظیم شہر موہن جو دڑو کی کھدائی کو 2020 میں ایک سو سال مکمل ہونے پر محکمہ ثقافت سندھ کی جانب سے اس شہر کی پراسرار زبان کے رسم الخط اور قدیم آثاروں سے ملنے والی اشیا پر بنی علامتوں کو سمجھنے کے لیے پہلی بار دنیا کے مختلف ممالک سے ماہرین آثار قدیمہ کی عالمی کانفرنس آج (جمعرات) سے منعقد کی جارہی ہے۔
یہ تین روزہ کانفرنس مکمل طور پر صرف اس قدیم شہر کی زبان کو سمجھنے کے لیے بلائی گئی ہے، جس میں فرانس، امریکہ، جاپان، جرمنی، اٹلی، ڈنمارک اور دیگر ممالک کے آثار قدیمہ، جغرافیائی اور لسانیت کے ماہرین شرکت کر رہے ہیں۔
اس عالمی کانفرنس میں شرکت کے لیے آئے ہوئے ٹیکنیکل یونیورسٹی آف برلن، جرمنی کے شعبہ ارضیات اور جیو سائنس کے پروفیسر ڈاکٹر اینڈریاس فلوز نے انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں بتایا: ’موہن جو دڑو کی زبان کو سمجھنے کے لیے بلائی گئی اس پہلی کانفرنس میں پراسرار زبان کو مکمل طور پر سمجھنے کے لیے کوئی بڑی پیش رفت تو نہیں ہوسکے گی، مگر اس زبان کو سمجھنے کے عمل کی بنیاد پڑ جائے گی۔‘
ڈاکٹر اینڈریاس فلوز نے کہا: ’سچ تو یہ ہے کہ ہمیں ابھی تک زبان میں استعمال کی گئی سب علامتیں نہیں مل سکی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ممکن ہے کہ زبان میں استعمال ہونی والی علامتوں کی تعداد ان علامتوں سے کئی زیادہ ہے جو اب تک ملیں ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا: ’ارواتھم مہادیون اور اسکو پرپولا جیسے محققین نے اس قدیم شہر میں استعمال کی جانے والے زبان میں الفاظ اور علامتوں کی تعداد چار سو بتائی ہے، جب کہ کچھ ماہرین ان کی تعداد دو ہزار بتاتے ہیں، لیکن میری اپنی تحقیق کے مطابق اس رسم الخط کی 17 ہزار علامتیں موجود ہیں جو کہ میرے پاس ایک ڈیٹا بیس کی صورت میں محفوظ ہیں۔‘
ڈاکٹر اینڈریاس فلوز نے مزید کہا کہ اس زبان میں استعمال ہونے والے الفاظ اور علامتوں کی تعداد 30 لاکھ تک ہوسکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس قدیم رسم الخط میں استعمال ہونے والے سارے نشان نہ ملنے کے کئی اسباب ہیں۔ ’ابھی تک ملنے والی اشیا میں مہریں، تختیاں اور مٹی کے برتنوں پر کی گئی نقش نگاری شامل ہے، جنہیں مٹی یا اس جیسے کسی میٹریل سے بنایا گیا تھا اور جو چار ہزار سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود سلامت رہ گئیں، مگر یہ علامتی زبان ہڈی، لکڑی یا کاغذ پر بھی نقش کی گئی ہو گی، جس کا ہمیں نہیں معلوم، وہ سب وقت کے ساتھ ضائع ہوگئی ہوں گی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ اب تک موہن جو دڑو کے مدفون شہر کے تھوڑے سے حصے کی کھدائی ہوسکی ہے اور جہاں سے جتنی نشانیاں ملیں ان کی بنیاد پر اس پراسرار زبان کو پڑھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ’ہم صرف امید کرسکتے ہیں کہ مستقبل میں اس زبان کی مزید نشانیاں ہمیں مل سکیں۔‘
انڈس رسم الخط پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ اپنے طرز کا ایک انوکھا رسم الخط ہے، جس کا کسی اور دور یا کسی دوسرے علاقے کی تہذیب سے موازنہ کرنا بہت مشکل ہے۔
محکمہ ثقافت سندھ کے مطابق یہ شہر 12 سو ایکڑ پر مشتمل ہے جب کہ اب تک صرف چھ سو 50 ایکڑ کے رقبے کی کھدائی ہوسکی ہے۔
آج سے موہن جو دڑو میں شروع ہونے والی عالمی کانفرنس میں اس انڈس سکرپٹ کی سمت کا تعین کیا جاسکے گا۔
ڈاکٹر اینڈریاس فلوز کے مطابق: ’بڑا امکان ہے کہ یہ زبان دائیں سے بائیں جانب لکھی جاتی تھی، مگر ہو سکتا ہے کہ دس فیصد رسم الخط بائیں سے دائیں جانب لکھا جاتا ہوگا اور الفاظ اوپر سے نیچے کی جانب لکھے جاتے ہوں گے۔ چند الفاظ دائرے کی شکل میں لکھے ہوئے ہیں جو بہت کم ہیں، جب کہ اکثر الفاظ دائیں سے بائیں ہی لکھے گئے ہیں۔‘
کانفرنس میں شرکت کے لیے آئے ہوئے جاپان کے ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر ایومو کوناسکاوا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ قدیم رسم الخط کے ساتھ کھدائی کے دوران ملنے والی مہریں بھی انتہائی اہم ہیں۔
ان کا کہنا تھا: ’میری تحقیق کے مطابق مہروں پر بنائے جانی والی جانوروں کی تصاویر میں سے اکثر جانوروں کے منہ کا رخ دائیں جانب ہے۔ ان کے پیچھے بھی کچھ راز ہیں جن کو بھی سمجھنے کی کوشش کی جائے گی۔‘
موہن جو دڑو کی قدیم زبان کو پڑھنے کی اہمیت کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈاکٹر اینڈریاس فلوز نے کہا کہ اگر اس قدیم زبان کا راز کھل جائے تو اس قدیم تہذیب کے بارے میں بہت کچھ جاننے کو ملے گا کہ وہ لوگ روزمرہ کی زندگی کیسے بسر کرتے تھے، ان کے کاروبار اور سماجی صورت حال اور مذہب کے بارے میں بھی بہت کچھ جاننے کو ملے گا اور یہ بھی پتہ لگ سکے گا کہ یہ تہذیب دو ہزار یا 18 سو سال قبل مسیح میں کیوں کر برباد ہوگئی۔‘