ذیابیطس کے علاج کے لیے استعمال کی جانے والی دوا بار بار حمل گرنے کا سامنا کرنے والی خواتین کے علاج کے کام آسکتی ہے۔
والدین بننے کی کوشش کرتے ہر سو میں سے ایک جوڑے کو بار بار حمل گرنے جیسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ تعداد تین یا تین سے زیادہ بار ہو سکتی ہے اور ایسے نصف سے زائد کیسز کی کوئی قابل شناخت وجہ نہیں ہے۔
واروک میڈیکل یونیورسٹی ہسپتال کونونٹری واروک شائر کے مطابق ذیابیطس کی دوا سٹگلپٹن خواتین کے رحم میں سٹیم سیلز کی تعداد بڑھانے میں مدد دیتی ہے جو کہ صحت مند حمل کے لیے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
سٹگلپٹن درجہ دوم ذیابیطس کے علاج کے لیے تجویز کی جاتی ہے جس کا مقصد خون میں انسولین کی مقدار کو بڑھانا ہوتا ہے۔
محقیقین اب ایسی دوا کا تجربہ کر رہے ہیں جس کو ایک طویل کلینکل طریقہ کار سے جانچا گیا ہے اور ای بائیو میڈیسن کے مطابق یہ کام کر سکتی ہے۔
اس تحقیق میں 18 سے 42 سال کی عمر کی 38 خواتین کو شامل کیا گیا جن کو متعدد بار حمل گرنے کا سامنا رہا تھا اور اس گروپ میں حمل گرنے کی اوسط تعداد پانچ تھی۔
انہیں تین ماہ تک سٹگلپٹن دوا کے طور پر یا مادے کے طور پر دی گئی اس دوران ان کے جسم میں موجود سٹیم سیلز کی تعداد کا مشاہدہ کیا گیا۔
نتائج میں سامنے آیا کہ سٹگلپٹن کے مکمل کورس تک ان خواتین میں سٹیم سیلز کی تعداد میں اوسط 68 فی صد کا اضافہ ہوا۔ جب کے مادے کے طور پر یہی دوا لینے والوں کے سٹیم سیلز کی تعداد میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا۔
اگر کلینکل ٹرائلز کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ خواتین کو حمل گرنے سے بچانے کے لیے ان کے رحم کا علاج کرنے والا پہلا علاج ہو گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سے قبل واروک میں تحقیق کرنے والی ٹیم نے یہ انکشاف کیا تھا کہ خواتین کے رحم میں سٹیم سیلز کی کم تعداد بار بار حمل گرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ سٹیم سیلز مخصوص خلیوں ڈیسیڈوئل سیلز کی حفاظت کرتے ہیں۔
واروک میڈیکل سکول کے پروفیسر جان بروسنز جو کہ یونیورسٹی ہسپتال کوونٹری ٹرسٹ کے کنسلٹنٹ ہیں ان کا کہنا ہے کہ ’فی الحال مس کیرج جیسے مسئلے کے بہت کم موثر علاج موجود ہیں اور یہ اس سلسلے میں پہلا علاج ہے جو رحم کو حمل کے لیے مناسب طور پر تیار کرتا ہے۔ گو کہ مس کیریج جیناتی مسائل، رحم کی غیر مناسب ساخت کے باعث ہو سکتے ہیں لیکن ہمیں امید ہے کہ یہ نیا علاج ایسے نقصانات سے بچاؤ کرتے ہوئے جسمانی اور نفسیاتی دباؤ سے نمٹنے میں مدد دے گا۔‘
یہ نئی تحقیق ٹامی نیشنل سینٹر فار مس کیرج ری سرچ کی جانب سے کی گئی ہے۔
چیریٹی کی چیف ایگزیکٹو جین بریون کہتی ہیں کہ ’ ایک طویل عرصے سے ماہرین صحت کی جانب سے کہا جاتا رہا ہے کہ حمل گرنے کا علاج ممکن نہیں اور والدین اس حوالے سے ناامیدی کا شکار ہیں کیونکہ ان کے اس حوالے سے آپشن بہت کم تھے۔ تحقیق کاروں کی یہ کامیابی جو کہ دنیا کی صف اول ٹیم نے واروک میں حاصل کی ہے وہ اس علاج کے حوالے سے اہم ہے اور یہ حمل گرنے کے امکانات کو کم کر دے گی۔ اس حوالے سے بڑے پیمانے پر ایک تصدیقی عمل کی ضرورت ہے اور ہمیں امید ہے کہ ایسا جلد ہو سکے گا۔‘