صوبہ سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد کی چوڑیاں ملک بھر میں مقبول سمجھی جاتیں ہیں۔ شہر کا علاقہ لیاقت کالونی چوڑی سازی کی صعنت میں اتنا مشہور ہے کہ اس کے ایک محلے کو چوڑی پاڑہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
45 سالہ رخسانہ بی بی لیاقت کالونی میں رہتی ہیں اور چوڑیوں کو گرم کرکے جوڑنے والا کام ’جُڑائی‘ اور ساتھ میں چوڑیوں کو صارف تک پہنچنے والی شکل دینے والا کام یعنی ’سدائی‘ کرتی ہیں۔ یہ ان کا خاندانی پیشہ ہے۔ ان کے والدین، بھائی بہن، شوہر، سسر اور خاندان کے دیگر افراد بھی چوڑی سازی کا کام کرتے تھے اور اب ان کی اپنی بیٹیاں بھی یہی کام کررہی ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’چوڑی بننے کے کئی مراحل ہیں۔ کارخانے میں چوڑی بننے کے بعد وہ مکمل گول نہیں ہوتی بلکہ ایک جگہ سے ٹوٹی ہوئی ہوتی ہے۔ وہ ہمارے پاس آتی ہے، ہم اس ٹوٹی ہوئی چوڑی کو لوہے کہ چادر پر گرم کرکے جوڑتی ہیں جسے جُڑائی کہا جاتا ہے، بعد میں اسے سیدھا کرتے ہیں جسے سدائی کہا جاتا ہے۔ چوڑیوں کی سطح کو مزید ہموار کرنے کا عمل ’چکلائی‘ کہلاتا ہے۔ آخر میں ’چٹک‘ کا کام ہوتا ہے جس میں چٹکی ہوئی چوڑیوں کو علیحدہ کیا جاتا ہے۔ اسے بعد میں بھٹی کے اندر پکا کر رنگ اور ڈیزائین سے مزین کیا جاتا ہے۔‘
رخسانہ بی بی کے مطابق کارخانے سے آنے والی چوڑیاں ایک بنڈل کی صورت میں بندھی ہوتی ہیں جسے توڑہ کہا جاتا ہے۔ ایک توڑے میں 350 چوڑیاں ہوتی ہیں جنہیں جوڑنے اور سدائی کرنے کا علاقے کے حساب سے چھ یا سات روپے معاوضہ ملتا ہے۔ یہ خواتین کاریگر روزانہ دس سے بارہ گھنٹے کام کرتی ہیں اور ان کو دو سو سے تین سو روپے معاوضہ ملتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رخسانہ کے مطابق ’یہ بہت مشکل کام ہے، ہمیں گیس پر چوڑیوں کو جوڑنا پڑتا ہے۔ اس کام کے لیے یا تو کمرے کے اندر کام کرتے ہیں اور اگر صحن میں کریں تو پردے لگا کر بند کرنا پڑتا ہے ورنہ گیس کا شعلہ ہلتا رہے گا۔ شدید گرمیوں میں ہماری حالت ابتر ہو جاتی ہے۔ پسینے سے شرابور ہوکر نڈھال ہوجاتے ہیں۔ اس کام کے دوران بیٹھنا پڑتا ہے جس سے گھٹنوں میں مستقل درد رہتا ہے، نظر کی کمزوری اور گرمی کےباعث گردے ختم ہوجاتے ہیں اور اجرت کچھ بھی نہیں ملتی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اور تو اور اس کام کے باعث ہماری شناخت تک مٹ جاتی ہے۔ ہم لوہے کی گرم چادر پر دو انگلیوں سے چوڑیوں کو رگڑتے ہوئے اٹھاتے ہیں جس سے انگلیوں کے نشان یعنی فنگر پرنٹس بھی مٹ جاتے ہیں۔ اس لیے یہ کام کرنے والی نوجوان خواتین کاریگروں کو اگر قومی شناختی کارڈ بنوانا ہو یا بڑی خواتیں کو کارڈ کی تجدید کروانی ہو تو بائیو میٹرک تصدیق ممکن نہیں ہوتی۔ اس کے لیے کچھ عرصہ کام ترک کرنا پڑتا ہے جس کے بعد بالاخر شناختی کارڈ بنتا ہے۔‘
ایک اور سوال کے جواب میں رخسانہ بی بی نے کہا کہ ’سخت کام اور کم معاوضے کے باوجود چوڑی سازی کا کام بند نہیں ہوگا۔ اگر ہم انکار کردیں تو کوئی اور کرے گا۔ مہنگائی اور غربت بڑھتی جارہی ہے اس لیے کئی لوگ کام کرنے کو تیار بیٹھے ہیں۔‘