ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں اچھے برے کی تمیز تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کے ہم ایک دوسرے کی نیت پر شک کرتے ہیں اور یہی خدشہ رہتا ہے کے ہر تجویز کے پیچھے کچھ نہ کچھ سازش یا ذاتی مفاد ہے۔
ہم اس شک کے ماحول تک اس لیے پہنچے کے ہمارے رہنما مسلسل یو ٹرن لیتے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں میں اعتماد ختم ہو چکا ہے۔ اگر کوئی سیاستدان ایک بات کر رہا ہے تو وہ اس پر کھڑا بھی رہے گا یا کوئی ڈیل کر کے ذاتی مفاد حاصل کر لے گا؟
دوسری وجہ یہ ہے کے عہدوں اور مراعات کے لیے ہم ہر حد تک جانے کو تیار رہتے ہیں اس لیے ہر شخص پر یہ شک کیا جاتا ہے کے وہ عہدے حاصل کرنے کے لیے سب کچھ کر رہا ہے۔ اس میں بھی عوام کا کوئی قصور نہیں ہے۔
سوشل میڈیا پر کسی نے ایک بہت پرانی خبر کا تراشہ لگایا جس میں سکندر مرزا نے اپنے آپ کو اور اپنی بیگم کو سرکاری اعزازات کے لیے نامزد کیا۔ اس فیصلہ کا دفاع کرتے ہوئے انہوں نے کہا کے ان کو دلچسپی نہیں تھی لیکن کابینہ کے اصرار پر انہیں ایسا کرنا پڑا۔ یعنی کابینہ بھی انہی لوگوں پر مشتمل تھی جو خوشامد میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ خبر لگانے والے پر مجھے اعتبار ہے اسی لیے میں نے اس خبر کو مستند سمجھا اور یہاں مثال کے طور پر اس کا ذکر کیا۔ پچھلے دنوں ایکسٹینشن کے معاملے میں جو کچھ ہوا وہ بھی آپ کے سامنے ہے۔
اس تمہید کا مقصد یہ ہے کے جب ہم نے نئی جمہوریہ کی تحریک کا اعلان کیا تو بہت سے لوگوں کو یہ شک ہوا کے اس کے پیچھے کچھ سازش ہے۔ اگر آپ کو یاد ہو تو ہمارے اعلان کے فورا بعد سوشل میڈیا پر یہ باتیں گردش کرنے لگیں کے ملک میں صدارتی نظام کی تحریک شروع ہو رہی ہے۔ جب ہم نے شدت سے اس بات کی وضاحت کی کے ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے تو وہ بات ختم ہوئی۔
اب پچھلے کچھ دنوں سے انتہائی بااثر رائے ساز یہ بات کر رہے ہیں کے موجودہ 1973 کے آئین کے خلاف تحریک چل رہی ہے اس لیے کے اٹھارویں ترمیم اسٹبلشمنٹ کو پسند نہیں۔ میں اکثر ان لوگوں کو ذاتی طور پر جواب دیتا ہوں مگر اب ایک ٹی وی انٹرویو میں سینیئر صحافی حامد میر نے یہ بات کہی کے ان کے علم میں ہے کہ 1973 کے آئین کے خلاف تحریک شروع کی جا رہی ہے۔ اس لیے میں نے سوچا اس بات کا مفصل جواب دینا ضروری ہے۔ حامد میر کے ادارے کے بہت سے لوگ مجھے اچھی طرح جانتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پہلی بات یہ کے ہم نے کبھی یہ بات نہیں کی کے موجودہ آئین کو معطل یا ختم کیا جائے یا اس میں کوئی دور رس تبدیلیاں کی جائیں۔ جب تک ہم ایک نئی جمہوریہ کی اساس اور ڈھانچہ تیار نہیں کرتے موجودہ آئین کو مکمل طاقت کے ساتھ لاگو رہنا چاہیے۔ لیکن ہم نے یہ ضرور کہا ہے کے موجودہ جمہوریہ جس میں آئین بہت سے حصوں میں سے ایک حصہ ہے اس میں کچھ ایسی خرابیاں ہیں کہ جس سے ہمارے موجودہ مسائل نے جنم لیا ہے۔
ہم اس بات سے اختلاف کرتے ہیں کہ اگر الیکشن ہوتے رہیں تو معاملات صحیح سمت میں چل پڑیں گے۔ پچھلے ہفتے قانون سازی میں جو کچھ ہوا اس کے بعد آئندہ مسائل اور زیادہ بڑھیں گے جس کا کچھ اشارہ آپ کو اس سے مل گیا کہ امریکہ کے وزیر خارجہ اور وزیر دفاع دونوں نے یہ ضروری نہیں سمجھا کے پاکستان کے سول حکومت سے بات کی جائے۔ انہوں نے ٹیلیفون انہی کو کیا جن کے سامنے پارلیمان ڈھیر ہو گئی۔
دوسری بات یہ کہ ہم موجودہ سیاسی پارٹیوں کو رد نہیں کر رہے بلکہ انہیں اس عمل میں شامل ہونے کی دعوت دے رہے ہیں۔ ہاں لیکن یہ ضرور ہے کے ان کے ماضی کے فیصلے دیکھ کر ہمیں ان پر اعتبار زرا کم ہے۔ اس لیے اگر ہم مذاکراتی ٹیبل پر موجود نہ ہوں تو ہم ان مذاکرات کو رد کرتے ہیں۔
تیسری بات یہ کہ نئی جمہوریہ کا عمل کسی بند کمرے میں چند لوگوں کے درمیان نہیں ہوگا۔ ہم نے ہمیشہ یہ بات کہی کے پوری قوم کو اس میں اپنی رائے دینی ہوگی تاکہ سب مل کر بہتر فیصلے کریں۔ یقیناً چند لوگ ٹیبل پر بیٹھ کر سوچ بچار کریں گے مگر عوامی رائے کو حاصل کیا جائے گا اور جو بھی فیصلہ ہو وہ عوام کی تائید کے لیے ان کے سامنے رکھا جائے۔
آخری بات یہ کے ہاں میں مانتا ہوں کے میرا ایک ذاتی مفاد اس نئی تحریک سے وابستہ ہے۔ میں چاہتا ہوں کے تاریخ میں ایک سیاسی کارکن کے طور پر یاد رکھا جاؤں جس نے ملک کی تعمیر میں ایک اینٹ لگائی۔ اگر ایسا ہو گیا تو اپنی زندگی کو کامیاب سمجھوں گا۔