ماضی میں ’دہشت گردوں کی جنت‘ سمجھے جانے والے قبائلی علاقوں کو حقیقی پارلیمانی نظام کا حصہ بناتے ہوئے اسے خیبرپختونخوا کی اسمبلی میں زیادہ نمائندگی دینے کا عمل ایک آئینی ترمیم کے ذریعے مکمل ہوچکا ہے۔
قومی اسمبلی سے منظور ہونے کے بعد ان نئے اضلاع میں صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں اضافے والی 26 ویں آئینی ترمیم حتمی منظوری کے لیے سینیٹ بھیج دی گئی ہے۔
ایوان بالا سے منظوری اور صدر کے دستخط کے بعد ان ضم شدہ اضلاع میں صوبائی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 16 سے بڑھ کر 24 ہو جائیں گی۔ یہ سب کیسے ممکن ہوا اور اس بارے میں خدشات کیا ہیں؟
اس آئینی ترمیم کے لانے والوں کا موقف ہے کہ چونکہ مردم شماری کے دوران ہزاروں قبائلی آئی ڈی پیز کی صورت اپنے گھروں سے نقل مکانی کرچکے تھے اس لیے ان کی گنتی پوری نہیں ہوئی۔ قومی اسمبلی نے نشستوں میں اضافے کے لیے ترمیم ایسے منظور کی کہ ایوان میں موجود قریبا 288 اراکین میں سے کسی ایک نے بھی اس کی مخالفت نہیں کی۔
اس منفرد اتفاق نے لوگوں کو ایک خوشگوار حیرت میں ڈال دیا کہ شدید سیاسی تناؤ میں بھی حکومت اور اپوزیشن جماعتیں اس قومی اہمیت کے معاملے یکجا ہوگئیں۔
اس سے بھی زیادہ حیرانی کا مقام یہ تھا جب معلوم ہوا کہ یہ بل ایک ایسے رکن نے پیش کیا جو اس وقت ریاست سے سخت ناراض اور ریاست کے نشانے پرموجود تنظیم پختون تحفظ موومنٹ کے نمائندے سمجھے جاتے ہیں۔
تمام جماعتوں کو اس مسئلے پر متحد کرنے والے محسن داوڑ تھے۔ اس ترمیم کی منظوری کا طریقہ کار اپنی جگہ لیکن لوگوں کے ذہنوں میں ایسے چند سوالات موجود ہیں کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ سیاستدان جو ایک دوسرے کی سنتے نہیں متفق ہوگئے۔ یہ کوئی اچانک رونما ہونے والا عمل نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے کافی عرصے پر محیط کوششیں تھیں۔
محسن داوڑ نے بتایا کہ یہ اتنا آسان نہیں تھا۔ ’اس اتفاق رائے کے لیے مجھے تمام جماعتوں کے علاوہ وزیراعظم عمران خان کے پاس بھی جانا پڑا۔ وزیراعظم نے کہا کہ مجھے تو کوئی اعتراض نہیں لیکن آپ پہلے اپوزیشن کو راضی کرلیں۔ اس کے بعد میں نے تمام اپوزیشن جماعتوں سے رابطے کرکے انہیں تیار کیا جس میں کئی ماہ لگے۔ پھر بل تیار کرکے اسمبلی میں پیش کیا جہاں ہمیں اسمبلی اجلاس کا ڈیڑھ ماہ تک انتظار کرنا پڑا۔آخرکار یہ اسمبلی میں پیش ہوا اور ایک تاریخی کامیابی نصیب ہوئی۔‘
محسن داوڑ سے پوچھا کہ بعض لوگ انتخابات کے التوا کے حوالے سے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں تو انہوں نے انتہائی پراعتماد طریقے سے کہا کہ وہ جلد ہی مطمئن ہوجائیں گے۔
اس ترمیم کی منظوری نے فاٹا انضمام کی تحریک میں پیش پیش فاٹا یوتھ جرگہ کے روح رواں کو پھر متحرک کر دیا جو کہتے ہیں کہ قبائلی علاقوں میں صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں اضافے کی یہ ترمیم دراصل ایک سازش ہے جو ان علاقوں کے لوگوں کو صوبائی اسمبلی میں حق نمائندگی سے محروم رکھنا چاہتی ہے۔
سینئر صحافی سلیم صافی کو شک ہے کہ فاٹا انضمام کی مخالف لابی ایک بار پھر متحرک ہوگئی ہے جن میں اس علاقے کے رکن قومی اسمبلی، گورنر خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقوں میں تحریک انصاف کے صدور اور وفاقی وزیر نورالحق قادری سب پیش پیش ہیں۔
ان کے خیال میں تاخیر کرکے تحریک انصاف مزید وقت حاصل کرنا چاہتی ہے تاکہ اسے آئندہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات کو جیتنے کے قابل بنایا جاسکے۔
سلیم صافی کہتے ہیں کہ نورالحق قادری اورگورنر شاہ فرمان نے وزیراعظم عمران خان کو پارٹی کے بارے میں خراب سیاسی صورتحال کا واسطہ دے کر مجبور کیا کہ جب تک پارٹی قبائلی علاقوں میں صحت انصاف کارڈ کی ’رشوت‘ تقسیم نہ کر دے اور دیگر مراعات نہ دے ،پارٹی کو انتخابات میں جانے سے نقصان ہوسکتا ہے۔
سلیم صافی کا موقف ہے کہ حکومت کو صوبائی اسمبلی کی پرانی 12 نشستوں پر ہی الیکشن کرانا چاہیے تھا اور اگر بعد میں تعداد بڑھ جاتی تو نئے حلقوں میں پھر انتخابات کرا لیے جاتے۔ ’لیکن شاید یہ سب مل کر ان انتخابات کو ایک سے ڈیڑھ سال تک موخر کرکے ان سو ارب روپے پربھی ہاتھ صاف کرنا چاہتے ہیں جو اس ایک سال حکومت نے ان علاقوں کو فراہم کرنے ہیں۔‘
سلیم صافی کو شک ہے کہ ’حکومت قبائلی علاقوں میں انتخابات سے قبل ترقیاتی کاموں کے ذریعے رشوت دینا چاہتی ہے۔ بلدیاتی انتخابات کراکے اپنے نمائندوں کا جال بچھانا چاہتی ہے۔ جرگوں میں اپنے لوگوں کو بٹھانا چاہتی ہے اوراس طرح سے صوبائی اسمبلی کے انتخابات کو ہر صورت جیتنا چاہتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ فاٹا یوتھ جرگے نے انضمام کے لیے بےانتہا کوششیں کیں اورجب یہ مقصد حاصل ہوگیا تو جرگے کے اراکین جن کا تعلق مختلف سیاسی جماعتوں سے تھا، اپنی اپنی پارٹیوں کو واپس لوٹ گئے۔ ’لیکن اب ایک بار پھر ایسی صورتحال بنائی جا رہی ہے کہ شاید ان نوجوانوں کو اکٹھا کرنا پڑے۔‘
پشاورمیں مقیم شمالی وزیرستان کے صحافی رسول داوڑ کا کہنا تھا کہ نشتوں میں اضافے کے ذریعے قبائلی اضلاع میں انتخابات کے التوا کے حوالے سے خدشات میں جان ہے۔
’ان علاقوں میں نو ماہ کا عرصہ گذرنے کے باوجود اس وقت کوئی بھی قانون لاگو نہیں ہے۔ ان علاقوں میں پولیس تو ہے لیکن اسے ایف آئی آر تک لکھنی نہیں آتی، جج تو ہیں لیکن ان کے پاس کوئی کیس نہیں لایا جاتا، ہسپتال تو ہیں لیکن کوئی بھی سینیئر ڈاکٹر ان ہسپتالوں میں آنا نہیں چاہتا۔ ایسے میں انضمام کے اس عمل کو کامیاب تو نہیں کہا جاسکتا ہے۔‘