سٹیسی (فرضی نام) دس سال کی عمر میں کنواری نہیں رہیں۔ تیرہ سال تک وہ باقاعدگی کے ساتھ بڑی عمر کے لڑکوں اور مردوں کے ساتھ جنسی تعلقات رکھ رہی تھیں۔ ایک بدنام گروہ کی کم عمر ترین رکن کے طور پر ان کے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں تھا۔
اپنے جنسی استحصال کی داستان بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ’میں غیراہم چیز کی طرح ادِھر اُدھر پھینکی جا رہی تھی۔ مجھے اس کا آدھا بھی یاد نہیں۔ ایسا لگتا تھا جیسے میں وہاں تھی ہی نہیں۔ میں اٹھتی تھی، اپنے آپ کو صاف کرتی اور پانچ منٹ بعد بھلا دیتی کہ میرے ساتھ کچھ ہوا ہے۔ میں اسے بھلا دیتی تھی۔‘
اپنی بلوغیت کے دور میں وہ بارہ سال کی عمر میں گینگ کی دنیا میں داخل ہوئیں اور بڑی عمر کے گینگ کے لوگوں کے ساتھ سیکس طرز زندگی بن گیا تھا۔ ایک جنسی چیز کے علاوہ وہ منشیات کی ایک بااعتماد ترسیل کا ذریع بھی بن گئیں۔ سینئر گینگ اراکین کو معلوم تھا کہ انہیں پولیس چھوٹی ہونے کی وجہ سے نہیں روکے گی۔
سٹیسی بتاتی ہیں کہ ”میں نے سکول سے غائب ہونا شروع کر دیا تاکہ منشیات حاصل کرسکوں۔ جب میں پندرہ کی تھی تو مجھے ٹیکسٹ پیغام موصول ہوتا، میں اٹھتی اپنا بیگ اٹھاتی، باڑ پر سے کود کر وہ کرتی جو مجھے کرنا تھا۔ بعض اوقات میں واپس سکول بھی چلی جاتی تھی۔‘
’ایسا کرنا بہت آسان ہوگیا تھا۔ اور پیسہ ہر جگہ ہے۔ جب میں 15 کی تھی تو میں نے 400 پاونڈز بچا لیے تھے۔ مجھے احساس ہوا کہ میں کتنا کچھ بچا سکتی ہوں۔ میں نے اسے چھوڑنے کے بارے میں کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔ میں اس سے نکل کر کرتی بھی تو کیا کرتی؟ یہ تو کوئی راستہ نہیں ہی تھا۔ گینگ آپ کا خاندان بن جاتا ہے، یہی ہے جو آپ کو ان کے ساتھ جڑے رکھتا ہے۔‘
سٹیسی کا تجربہ کوئی انوکھا نہیں تھا۔ 2017 میں تقریبا اٹھارہ سال سے کم عمر کی 500 لڑکیوں کے بارے میں وزارت داخلہ کو آگاہ کیا گیا جن کے بارے میں شبہ تھا کہ ان کا جنسی استحصال ہوا ہے۔ اس میں گذشتہ تین برسوں میں 250 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ 2014 میں 47 سے بڑھ کر 110 بچیوں کو محنت کے استحصال کی وجہ سے رپورٹ کیا گیا۔
نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) جو یہ اعدادوشمار جمع کرتی ہے، اس اضافے کی وجہ گینگ کا استحصال ہے۔ ایجنسی نے حالیہ دنوں میں اعتراف کیا کہ برطانیہ بھر میں یہ استحصال اندازوں سے تین گنا زیادہ ہے۔ ہزاروں ایسے بچوں کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔
جہاں اکثر لڑکے منشیات کے کاروبار میں ملوث ہیں، پولیس کا کہنا ہے کہ لڑکیوں اور عورتوں کا جنسی استحصال یا اس سے جڑے جرائم جیسے کہ منی لانڈرنگ یا دکانوں سے چوریوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ برطانیوی شہریوں کے بچوں کی تجارت میں 12 ماہ میں 66 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے ۔ اس میں 38 فیصد عورتیں ہیں۔
سٹیسی کی جانب سے کلاسیں چھوڑنے کی بڑھتی تعداد تاکہ وہ منشیات کا کاروبار کرسکیں ان کی ان سرگرمیوں کو نا تو اساتذہ اور نہ ہی بچوں کی سروسز نے معنی خیز انداز میں نوٹ کیا۔ سکول کے کونسلر کو یہ بتانے کے باوجود کہ وہ جنسی تعلقات رکھ رہی ہیں مزید تفتیش نہیں کی گئی تھی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’کسی نے اسے نوٹ نہیں کیا۔ میں نے سکول میں ایک کونسلر سے جنسی صحت کے بارے میں بات کی تھی۔ میں کچھ زیادہ نہیں بتا سکتی تھی لیکن جب میں نے ظاہر کیا تو اسے اس نہج تک نہیں لیجایا گیا جہاں تک اس کی ضرورت تھی۔ لہذا میں نے اسے چھوڑ دی۔ میں نے سچ بتانا چھوڑ دیا: میں نے سروسز کو جھوٹ کہنا شروع کر دیا۔‘
حکام کی جانب سے عورتوں کی گینگز میں شمولیت پر ان تنظیموں میں جو ایسی صورتحال میں ان میں مدد کرتی ہیں تشویش پیدا ہوئی ہے۔
2012 میں لندن میں جرائم پر قابو پانے کے لیے گینگ میٹرکس نامی نظام میٹروپولٹن پولیس نے قائم کیا تھا۔ اس پر مسائل پر تنگ نظری سے دیکھنے کی وجہ سے تنقید کی گئی ہے۔ اس نظام نے جو تازہ اعدادوشمار اکٹھے کئے ہیں ان کے مطابق 3806 نوجوان گینگ میں شامل ہیں جن میں سے محض ایک فیصد عورتیں ہیں۔
چلڈرن سوسائٹی کی جانب سے گریٹر مانچیسر، لندن اور برمنگم میں قائم ایک نئے منصوبے نے جو بچوں کے استحصال کا خاتمہ کرتا ہے خیرات میں جن لوگوں کی شناخت کی ہے ان میں معلوم کیا کہ پچاس فیصد لڑکیاں ہیں۔
منصوبے کے منیجر جو ہنٹ نے بتایا کہ انہیں گیارہ سال کی لڑکیاں بھی ملی ہیں جن کا استحصال کیا جاتا ہے لیکن ان کی شناخت نہیں ہوتی ہے۔ ’ہمیں معلوم ہے کہ نوجوان عورتیں اور بچیاں بڑھی عمر کے مرد رکھتے ہیں۔ ہمیں سکولوں میں مزید آگہی پھیلانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ماہرین کی صلاحیت بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ نشانیاں پہچان سکیں۔‘
’جن گینگز میں ٹین ایج لڑکے یا مرد ہوں گے وہاں لڑکیاں بھی ہوں گی۔ اگرچہ ضروری نہیں کہ وہ تشدد میں ملوث ہوں وہ مضافات میں رہتے ہوئے اہم کردار ادا کرتی ہیں۔‘
گینگ سے متاثرہ نوجوان عورتوں کی مدد کے لیے قائم ملک کی واحد آبیاندہ نامی تنظیم کے بانی ابی بلنگ ہرسٹ کا کہنا ہے کہ سروسز عورتوں کی گینگ میں شمولیت سے نمٹنے میں ناکام ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ہم جن نوجوان لڑکیوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں انہیں گینگ کی ممبرشپ بھی حاصل نہیں تھی۔ وہ اس نظام میں مردوں کے لیے ایک مواد کی محض حیثیت رکھتی ہیں۔ ماہرین جب گینگ کے بارے میں سوچتے ہیں تو نوجوان عورتیں ان کے ذہن میں بھی نہیں آتی ہیں۔ وہ ان عورتوں کے بارے میں دریافت ہی نہیں کرتے ہیں۔‘
’یہ لڑکیاں جنسی صحت سروسز، ذہنی صحت کی سروسز یا ڈاکٹروں سے ملاقاتوں میں سامنے آتی ہیں۔ لڑکیوں پر توجہ کم ہوتی ہے کیونکہ وہ دوسرے لوگوں یا برداری کو نقصان پہنچانے والیوں کے طور پر نہیں دیکھتے ہیں۔‘
سولہ سال کی عمر میں سٹیسی کا گینگ کے اندر کردار ڈرامائی طور پر تبدیل ہوا۔ انہوں نے ایک سرکردہ رکن جو ان سے اٹھارہ سال عمر میں بڑے تھے تعلق قائم کر لیا۔ اس نے انہیں ’براہ راست انچائی تک پہنچا دیا۔‘
’مجھے ادھر ادھر پھینکنا بند ہوگیا۔ میں صرف ان کے ساتھ تھی۔ ہر کوئی یہ جانتا تھا۔ جب آپ کا کسی گینگ ممبر کے ساتھ تعلق ہوتا ہے تو کوئی آپ کو چھو نہیں سکتا ہے۔ وہ زیادہ پرکشش نہیں تھا۔ وہ جوان نہیں تھا۔ لیکن ہم دونوں ہیروئن رکھتے تے۔ میں اس کے ساتھ 17 سال کی عمر میں چلی گئی۔‘
وہ اب 24 سال کی ہیں اور پانچ سال قبل گینگ کی دنیا سے علیحدہ ہوگئی تھیں۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ اونچی سطح پر ہونے کی وجہ سے محفوظ تھیں لیکن اس نے انہیں تشدد اور جرائم کے زیادہ قریب کر دیا تھا۔ اس نے انہیں گینگ وار قریب سے دیکھنے کا موقع دیا۔ ’یہ سب دیکھنے اور کسی کو نہ بتانا کافی مشکل تھا۔‘
گیارہ سے 24 سالہ نوجوان عورتوں کی مدد کرنے والی بلنگ ہرسٹ کہتی ہیں کہ کئی خواتین جن کی وہ مدد کر رہی ہیں ’میدان جنگ‘ جیسے پیچیدہ اور صدمے سے گزر رہی تھیں۔ سروسز کی مدد نہ ہونے اور سینئر مرد اراکین کے ردعمل کی خوف کی وجہ سے کئی ان سے بھاگ نہیں سکتیں تھیں۔ ’یہ نوجوان عورتیں اس خوف کی وجہ سے خفیہ رہتی ہیں۔‘
سٹیسی یاد کرتی ہیں کہ ’میں نے اپنے گروپ میں باقاعدگی سے دکھتے ہوئے دیکھے ہیں۔ تلخ کلامی اکثر لڑائی پر ختم ہوتی تھیں۔ یہ بہت جلد معمول بن جاتا ہے۔ اگر آپ سنتی ہیں کہ کسی کو خنجر مارا گیا ہے تو آپ نہیں جاتیں۔ آپ ڈرامہ سننا چاہتی ہیں گرچہ آپ کو افسوس کا احساس ہوتا ہے۔
’میں سالگرہ سے زیادہ تعداد میں جنازوں میں گئی ہوں ۔ یہ کوئی لطیفہ نہیں ہے۔ میں محض 24 سال کی ہوں۔‘
سٹیسی 18 سال کی عمرمیں حاملہ ہوگئیں جسے وہ باہر نکلنے کا راستہ بتاتی ہیں۔ ’حاملہ ہونا گینگ سے علیحدہ ہونے کا اس کے لیے آخری راستہ تھا۔ چار سالہ بیٹی کے ساتھ اب سٹیسی کہتی ہیں کہ ان کو منشیات فروخت کرکے پیسے بنانے کا خیال آتا ہے۔ ’کبھی کبھی جب میرے پاس محض 20 پاونڈز ہوتے ہیں اور بجلی ختم ہونے والی ہوتی ہے اور مجھے ادائیگی آئندہ جعمے تک نہیں ہونی تو میں سوچتی ہوں کہ ایک فون کال کے ذریعے وہ یک گھنٹے میں 800 پاونڈز بنا سکتی ہوں۔‘
’میں ایسا نہیں کرتی۔ میں ایک نشئی کی طرح محسوس کتی ہوں۔ نشئی بھی شاید اسی طرح محسوس کرتے ہوں گے۔‘
سٹیسی کے خیال میں گینگ جرائم ’مکمل طور پر منظم‘ ہوچکے ہیں لیکن میڈیا کی توجہ میں اضافے کی وجہ سے اس سے نمٹنے کے لیے زیادہ خدمات تیار کی جا رہی ہیں۔ ان کے خیال میں ان کی اور ان کا استحصال کرنے والوں کی مدد نہیں کی گئی۔
’میری جوانی ڈرامہ اور بدسلوکی سے بھرے تھے اور نصف وقت تک میں نہیں جانتی تھی کہ یہ بدسلوکی تھی۔ لیکن میں اس کے لیے کسی سے نفرت نہیں کر سکتی۔ میں اب بھی ان لوگوں سے مل جاتی ہوں جنہوں نے مجھ سے زیادتی کی۔ لیکن میں ان سے نفرت نہیں کرسکتی، کیونکہ وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ ایسا کر رہے ہیں۔‘
’اب جب اس پر زیادہ بات ہو رہی ہے تو یہ میڈیا میں بھی موجود ہے۔ ہر کوئی اب مدد کرنا چاہتا ہے۔ لیکن بعض اوقات یہ بہت دیر سے ہوتا ہے۔ یہ خدمات 10 سال پہلے ملنی چاہیے تھیں تاکہ میری نسل بچائی جاسکتی۔‘