متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے کنوینئر اور سابق وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی خالد مقبول صدیقی کے وزارت سے مستعفی ہونے کے بعد وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر تحریک انصاف کا وفد ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے بہادرآباد دفتر پہنچا جہاں ڈیڑھ سے دو گھنٹے جاری رہنے والے مذاکرات کے باوجود خالد مقبول صدیقی نے اپنا استعفیٰ واپس نہیں لیا۔
ملاقات کے بعد پریس کانفرنس کے دوران خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ وہ وزارت چھوڑنے کے فیصلے پر 100 فیصد قائم ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے گذشتہ دنوں کی جانے والی پیشکش کے بعد اور پی ٹی آئی وفد کے طے شدہ دورے سے قبل ایم کیو ایم نے وقت اور واقعات کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے کابینہ سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔ ایک جانب پیپلز پارٹی کی پیشکش سے انکار بھی نہیں کیا اور آج پی ٹی آئی سے مذاکرات کے بعد پریس کانفرنس میں یہ کہا کہ ’کابینہ سے استعفی دیا ہے لیکن حکومت کا ساتھ دیتے رہیں گے۔‘
ایم کیو ایم اس سال بلدیاتی انتخابات سے قبل پی ٹی آئی سے مطالبات کی منظوری کے لیے اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت سے بلدیاتی اختیارات حاصل کرنے کے لیے اپنی سیاسی حیثیت کا بھرپور استعمال کر رہی ہے۔
اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے رہنما فیصل سبزواری نے بتایا کہ یہ ملاقات مستعفی ہونے کی وجہ سے نہیں ہوئی بلکہ یہ گذشتہ ہفتے سے ہی طے تھی جب کہ استعفے کا علان اتوار کو کیا گیا ہے۔
فیصل سبزواری نے کہا: ’اسد عمر صاحب بطور وزیر ترقیات و منصوبہ بندی وفاقی حکومت کی جانب سے کراچی کے ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے آگاہ کرنا چاہ رہے تھے لیکن آج جب وہ آئے تو انہوں نے ہمارے کل کے فیصلے کے حوالےسے بھی دریافت کیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر ہم اپوزیشن کی نشستوں پر بیٹھ گئے تو پی ٹی آئی کے لیے تمام دروازے بند ہو جائیں گے۔ ابھی صرف ہمارے کنوینئر نے کابینہ سے علیحدگی اختیار کی ہے یہ سمجھتے ہوئے کہ پی ٹی آئی حکومت سے ایم کیو ایم اور سندھ کے شہری علاقوں کی جو توقعات وابستہ تھیں، ان میں کوئی پیش رفت نہیں ہو پا رہی۔ اب یہ حکومت کے لیے ایک ٹیسٹ کیس ہے کہ وہ ہمارے اس قدم کو کتنی سنجیدگی سے سمجھتے ہیں۔‘
یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف 2018 کے انتخابات میں سب سے زیادہ یعنی 116 نشستیں حاصل کرنے کے باوجود بھی سادہ اکثریت یعنی 172 نشستیں حاصل نہیں کرسکی تھی۔ جس کے بعد وفاق میں حکومت بنانے کے لیے پی ٹی آئی نے مخصوص نشستوں کے حصول کے لیے آزاد امیدواروں سمیت متحدہ قومی موومنٹ اور دیگر جماعتوں کو اتحاد کی دعوت دی تھی۔
آج ہونے والے مذاکرات میں پی ٹی آئی کے وفد میں سابق وزیر خزانہ اسد عمر، سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر فردوس شمیم نقوی، خرم شیر زمان اور حلیم عادل شیخ شامل تھے۔ ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے مطابق وفد کی جانب سے یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ ایم کیو ایم کے تحفظات وزیر اعظم عمران خان کے سامنے رکھے جائیں گے اور ایم کیو ایم کو بطور اتحادی جماعت برقرار رکھنے کے لیے مسائل کے حل نکالے جائیں گے۔
ایم کیو ایم کے سینیئر رہنما امین الحق نے آج کے مذاکرات کے حوالے سے کہا کہ ’اپنے حقوق کی بات کرنے کے لیے اگر ہمیں پی ٹی آئی سے الگ ہونا پڑا یا پیپلزپارٹی کو آنکھیں دکھانی پڑیں، تو ایم کیو ایم پاکستان شہری سندھ کے مسائل کے لیے تن تنہا بھی کھڑی ہوگی، مظاہرہ بھی کرے گی، گورنر ہاؤس یا وزیراعلیٰ ہاؤس کا گھیراؤ بھی کرے گی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ابھی تک ہم حکومت کو گرانا نہیں چاہتے اس لیے آج کے مذاکرات میں ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم کابینہ میں نہیں بیٹھیں گے لیکن مختلف مسائل پر حکومت کا ساتھ دیتے رہیں گے۔‘
امین الحق سے جب یہ دریافت کیا گیا کہ اگر پی ٹی آئی کی جانب سے پیش کیے گئے حل سے ایم کیو ایم اتفاق نہیں کرتی تو پھر رابطہ کمیٹی کا کیا فیصلہ ہوگا؟ جس پر ان کا کہنا تھا کہ ’ابھی ہم کابینہ سے الگ ہوئے ہیں، کل ہوسکتا ہے کہ حکومت سے بھی الگ ہوجائیں، لیکن ایم کیو ایم نے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔‘
کراچی میں چند روز قبل چار نئے منصوبوں کے افتتاح کے موقعے پر چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم) کو اس شرط پر سندھ میں وفاق کے برابر وزارتیں اور سندھ حکومت میں شمولیت کی پیشکش کی تھی کہ ایم کیو ایم کو وفاق میں پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد توڑنا ہوگا۔
تاہم اس حوالے سے امین الحق سے سوال کیا گیا کہ کیا بلاول کی آفر کے باعث کابینہ سے علحیدگی کا فیصلہ کیا گیا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ ’بلاول کے اس بیان میں ایم کیو ایم کے ساتھ اتحاد کرنے کی خواہش کم بلکہ موجودہ حکومت کو گرانے کی نیت ذیادہ تھی لیکن آفر قبول کرنے سے پہلے پیپلز پارٹی کو پہلے اپنا رویہ ٹھیک کرنا ہوگا اور آئین کی شق 140 اے کے تحت اختیارات منتخب بلدیاتی نمائندوں کو منتقل کرنے ہوں گے، تب ہی پیپلزپارٹی کے ساتھ اتحاد ممکن ہے۔‘
ایم کیو ایم کی جانب سے کابینہ میں وزارتوں کے لیے دو نام تجویز کیے گئے تھے جن میں ایم کیو ایم کے کنوینئر خالد مقبول صدیقی اور سینئیر رہنما امین الحق کے نام شامل تھے۔ ایم کیو ایم کی جانب سے یہ واضح کردیا گیا تھا کہ فروغ نسیم کو وزارتِ قانون کا قلمدان ملنے سے ان کے مطالبات کا کوئی تعلق نہیں۔
اس سے قبل اپریل 2014 میں پیپلز پارٹی کی دعوت پر ایم کیو ایم نے سندھ حکومت میں شمولیت اختیار کی تھی جس کے بعد ایم کیو ایم سے دو وزیر، دو مشیر اور دو معاونِ خصوصی مقرر کیے گئے تھے جس کے چھ ماہ بعد اکتوبر میں علیحدگی اختیار کر لی گئی تھی۔
گذشتہ سال کے آخر میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ایک بار پھر ایم کیو ایم کو سندھ حکومت میں شمولیت کی دعوت دی ہے۔